اہم ترین

بھارت میں جاوید اختر کو غدار کا بیٹا کیوں کہاں گیا

بھارت کے معروف ادیب اور شاعر جاوید اختر کو ان کی ایک ٹوئٹ پر غدار کا بیٹا کہا جانے لگا ۔ جس پر انہوں نے بھی ناقدین کو کھری کھری سناڈالی

6 جولائی کو جاوید اختر نے ایکس پر لکھا کہ سابق امریکی خاتون اول مشیل اوباما آئندہ انتخابات میں بائیڈن کے ریپبلکن حریف سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ‘امریکا کو بچا سکتی ہیں، میں ایک ہندوستانی ہوں اور اپنی آخری سانس تک رہوں گا، لیکن مجھ میں اور جو بائیڈن سے ایک چیز مشترک ہے۔ ہم دونوں کے امریکا کے اگلے صدر بننے کے یکساں امکانات ہیں۔

جاوید اختر نے یہ بات امریکا میں آئندہ صدارتی انتخاب کے امیدوار کے تناظر میں کہی۔ کیونکہ موجودہ امریکی صدر جو بائیڈن اس وقت اپنے مخالف ڈونلڈ ٹرمپ کے مقابلے میں کافی کمزور نظر آرہے ہیں۔

جاوید اختر کی ٹوئٹ کو نہ سمجھ سکنے والوں نے اسے بھی منفی انداز میں لیا اور تنقید شروع کردی۔ بڑی تعداد میں ٹرولرز نے انہیں غدار کا بیٹا بھی قرار دے دیا۔

جواب میں جاوید اختر نے سوشل میڈیا صارف کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ “یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ آپ مکمل طور پر جاہل ہیں یا مکمل طور پر احمق۔”

انہوں نے کہا، ’’میرا خاندان 1857 سے تحریک آزادی میں شامل ہے اور جیل اور کالاپانی کاٹ چکا ہے، جب شاید آپ کے آباؤ اجداد برطانوی حکومت کے پاؤں چاٹ رہے تھے۔‘‘

جاوید اختر مصنف، نغمہ نگار، شاعر جان نثار اختر اور مصنفہ صفیہ سراج الحق کے بیٹے ہیں۔ جان نثار اختر تقسیم ہند سے قبل برٹش انڈیا میں ترقی پسند مصنفین کی تحریک میں سرگرم تھے۔

جاوید اختر کے پردادا فضل حق خیرآبادی حریت پسند تھے جنہوں نے برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکمرانی کے خلاف 1857 کی بغاوت میں حصہ لیا۔فضل حق خیر آبادی کو انڈمان جزائر پر کالاپانی کے نام سے مشہور سیلولر جیل میں عمر قید میں رکھا گیا تھا۔ وہیں 1864ء میں وفات پائی تھی۔

پاکستان