ایک نئی تحقیق میں خبردار کیا گیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی اور غیر صحت بخش خوراک عالمی پیمانے پر فالج اور اس سے ہونے والی اموات کی شرح ہولناک حد تک بڑھارہی ہے۔
دی لانسیٹ نیورولوجی جرنل میں شائع تحقیق کے مطابق نیوزی لینڈ کی آکلینڈ یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی سے منسلک ماہر ویلری فیگین کی سربراہی میں تحقیقاتی ٹیم کے مطابق 2021 میں دنیا بھر میں تقریباً ایک کروڑ 20 لاکھ افراد پر فالج کا حملہ ہا جو کہ 1990 کے مقابلے میں 70 فیصد زیادہ ہے۔
ہر سال ہونے والی لاکھوں اموات کے علاوہ یہ بیماری اکثر زندہ بچ جانے والوں کو جسمانی معذور بنادیتی ہے۔ 1990 اور 2021 کے درمیان دنیا بھر میں فالج کی وجہ سے جسمانی معذوروں کی تعداد میں 32 فیصد اضافہ ہوا۔
فالج سے ہونے والی لاکھوں اموات کے علاوہ، یہ حملے اکثر زندہ بچ جانے والوں کو شدید طور پر معذور کر دیتے ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ 1990 اور 2021 کے درمیان دنیا بھر میں فالج کی وجہ سے صحت مند زندگی کے سالوں کی تعداد میں تقریباً ایک تہائی (32 فیصد) اضافہ ہوا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ فالج دنیا میں ہونے والی اموات کی تیسری بڑی وجہ بن گیا ہے ، جس سے ہر سال 73 لاکھ لوگ لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ حالانکہ فالج کی روک تھام بڑی حد تک ممکن ہے۔
امریکا کی یونیورسٹی آف واشنگٹن میں انسٹی ٹیوٹ فار ہیلتھ میٹرکس اینڈ ایویلیوایشن (آئی ایچ ایم ای) کی سینیئر محقق اور مطالعہ کی شریک مصنفہ ڈاکٹر کیتھرین جانسن کے مطابق فالج کے عوامل میں فضائی آلودگی (موسمیاتی تبدیلیاں)، جسمانی وزن، ہائی بلڈ پریشر، سگریٹ نوشی اور جسمانی بد اعتدالی شامل ہیں۔ ان تمام خطرات کو کم یا کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔
فالج میں اضافہ کیوں
عالمی سطح پر 1990 اور 2021 کے درمیان فالج کی شرح میں ہولناک اضافے کی سب سے بڑی وجوہات خون میں چینی کی مقدار بڑھ جانے، خون کی روانی غیر متعدل رہنے اور موٹاپا ہے۔
محققین کا کہنا ہے کہ فضائی آلودگی بھی فالج کی سب سے بڑی وجہ بن رہی ہے۔ گرم اور اسموگ زدہ ماحول میں غریب ملکوں کے رہنے والوں میں فالج کے خطرات کو بڑھا دیتے ہیں۔ درحقیقت فالج کے دوران دماغ میں خون بہنے کے خطرے کی بات آتی ہے، تو آلودہ ہوا میں سانس لینے سے لاحق خطرات کو اب تمباکو نوشی کے برابر سمجھا جاتا ہے۔
فالج کے دوران دماغ میں خون کے لوتھڑے جمنے کے واقعات کم رونما ہوتے ہیں لیکن یہ عالمی سطح پر فالج سے منسلک تمام اموات اور معذوری کے آدھے واقعات کی وجہ ہے۔