وفاقی حکومت نے پولیس اور رینجرز کی مدد سے اسلام آباد کی ڈی چوک کو پی ٹی آئی کے مظاہرین سے خالی کرالیا ہے۔ جس کے بعد علی امین گنڈا پور اور دیگر افراد شہر کے مختلف علاقوں میں موجود ہیں۔
اسلام آباد پہنچنے والے پاکستان تحریکِ انصاف کے احتجاجی قافلے میں شامل کارکنوں اور قانون نافد کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کے درمیان کئی گھنٹے گزرنے کے بعد بھی وقفے وقفے سے جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے۔
پولیس اور رینجرز نے ڈی چوک کو خالی کرالیا ہے جس کے بعد مظاہرین شہر کے مختلف علاقوں میں منتشر ہوچکے ہیں جب کہ علی امین گنڈا پور اور بشریٰ بی بی سمیت کئی رہنما اور اکرکن جناح ایوینیو میں موجود ہیں۔
گزشتہ روز چار رینجرز اور 2 پولیس اہلکاروں کی ہلاکت کے بعد آج بھی کم از کم 6 افراد ہلاک ہوئے ہیں جن کی لاشیں پمز میں موجود ہیں۔ ہلاک ہونے والوں میں سے چار کی موت گولیاں لگنے سے بتائی جارہی ہیں تاہم چاروں کی اب تک شناخت نہیں ہوسکی۔
پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں سے کم از کم چار کا تعلق ان کی جماعت سے ہے۔
دوسری جانب پی ٹی آئی کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے آج رات کریک ڈاؤن کیا جائے گا۔
جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے خیبر پختونخوا حکومت کے مشیر اطلاعات بیرسٹر سیف نے کہا ہے کہ عمران خان ڈی چوک کے بجائے سنگجانی میں احتجاج پر مان گئے تھے اور حکومت کے ساتھ مذاکرات کی اجازت بھی دے دی تھی لیکن بشریٰ بی بی نہیں مانیں اور انھوں نے اعلان کیا کہ وہ ڈی چوک ہی جائیں گی اور پھر وہ وہاں پہنچ گئیں۔
بیرسٹر سیف نے کہا ہے کہ جب تک مطالبات پورے نہیں ہوتے ہم جہاں بیٹھے ہیں وہیں بیٹھے رہیں گے تشدد کا نتیجہ حکومت کے خلاف ہی نکلے گا۔