پلاسٹک کا استعمال اس قدر بڑگیا ہے کہ اب اس کے ذرات اپنے دیگر اعضا کے طرح دماغ کے خلایت میں بھیداخل ہوگئے ہیں۔
پلاسٹک ہمارے جسم کو بہت سے نقصانات پہنچاتا ہے، یہ خون کے سرخ خلیات کے بیرونی حصے سے چپک جاتا ہے اور آکسیجن کے بہاؤ کو مکمل طور پر توڑ سکتا ہے، جس سے جسم کے بافتوں میں آکسیجن کی کمی واقع ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ اس کا مدافعتی نظام پر بھی برا اثر پڑتا ہے۔ اس سے آپ کا جسم آہستہ آہستہ کمزور ہو سکتا ہے اور آپ کی پیداواری صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔ یہ حاملہ خواتین اور چھوٹے بچوں کے لیے بھی نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ پھیپھڑوں، دل، دماغ اور نظام انہضام کو متاثر کرتا ہے۔ مائیکرو اور نینو پلاسٹک انسانی جسم کی ساخت کو متاثر کر سکتے ہیں۔
یورپی کیمیکل ایجنسی کے مطابق، مائیکرو پلاسٹک کسی بھی پلاسٹک کے ٹکڑے ہوتے ہیں جن کی لمبائی 5 ملی میٹر سے کم ہو۔ وہ مختلف طریقوں سے قدرتی ماحولیاتی نظام میں داخل ہوتے ہیں، بشمول بیوٹی پراڈکٹس، کپڑوں، خوراک کی پیکیجنگ، اور صنعتی عمل، آلودگی اور بیماری کا باعث بنتے ہیں۔
مائیکرو پلاسٹک کی دو اقسام کی نشاندہی کی گئی ہے۔ پرائمری مائیکرو پلاسٹک میں پلاسٹک کے وہ ٹکڑے یا ذرات شامل ہوتے ہیں جو ماحول میں داخل ہونے سے پہلے 5.0 ملی میٹر یا اس سے کم سائز کے ہوتے ہیں۔ ان میں کپڑوں کے مائیکرو فائبرز، مائیکرو بیڈز اور پلاسٹک کے چھرے (جنہیں نرڈلز بھی کہا جاتا ہے) شامل ہیں جو کہ ماحول میں داخل ہونے کے بعد بڑے پلاسٹک کی مصنوعات کے ٹوٹنے سے پیدا ہوتے ہیں۔
جنرل انوائرمنٹ انٹرنیشنل میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ 80 فیصد لوگوں کے خون میں مائیکرو پلاسٹک پایا گیا ہے۔ تحقیق میں ایک اور بات سامنے آئی ہے کہ مائیکرو پلاسٹک انسانی جسم میں گھوم کر جسم کے کئی اہم حصوں کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ جس کا براہ راست اثر دماغ پر پڑتا ہے۔ سائنسدانوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر صورتحال یہی رہی تو یہ انسانی جسم کے خلیوں کو بھی نقصان پہنچا سکتی ہے۔ مائیکرو پلاسٹک کے اثر سے انسان کم عمری میں بھی مر سکتا ہے۔
اس تحقیق میں 22 مختلف لوگوں کے خون کے نمونے لیے گئے اور ان میں سے زیادہ تر لوگوں کے خون میں پی ای ٹی پلاسٹک پایا گیا جو کہ عام طور پر پینے کی بوتلوں میں پایا جاتا ہے۔ اس میں سے ایک تہائی پولی اسٹیرین ہے جو کہ خوراک اور دیگر مصنوعات کی پیکنگ کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ اس میں پولی تھیلین بھی تھی جو پلاسٹک کے تھیلے بنانے میں استعمال ہوتی ہے۔ مائکرو پلاسٹک کا سائز 0.0007 ملی میٹر ہے۔
مزید برآں، آسٹریا، امریکہ، ہنگری اور ہالینڈ کے محققین کی ایک ٹیم کی ایک نئی تحقیق میں پتا چلا ہے کہ نینو پلاسٹک کھانے کے چند گھنٹوں کے اندر دماغ تک پہنچ سکتے ہیں، جو کہ خطرناک ہے کیونکہ یہ سوزش، اعصابی نظام میں خرابیوں، یا الزائمر یا پارکس جیسی نیوروڈیجنریٹی بیماریوں کا خطرہ بڑھا سکتا ہے۔ اور یہ ذہنی صحت کو آہستہ آہستہ خراب کر سکتا ہے۔
یورپی محققین نے دعویٰ کیا ہے کہ پلاسٹک کے ذرات اب انسانی دماغ کے خلیات کے اندر بھی پہنچ چکے ہیں۔ حال ہی میں ایک لاش پر تحقیق کی گئی۔ جس میں پتہ چلا کہ مائیکرو پلاسٹک کے 30 گنا زیادہ چھوٹے ٹکڑے مردہ جسم کے دماغ میں جگر اور گردے کے مقابلے میں پائے گئے۔
سال 2016 میں کی گئی ڈیمنشیا کے علاج سے متعلق تحقیق کے دوران محققین کو 12 افراد کے دماغوں میں صحت مند دماغوں کے مقابلے تین سے پانچ گنا زیادہ پلاسٹک کے ٹکڑے بھی ملے۔ وہ دماغ کی شریانوں اور رگوں کی دیواروں کے ساتھ ساتھ دماغ کے مدافعتی خلیوں میں موجود تھے۔
تاہم فی الحال یہ نہیں کہا جا سکتا کہ پلاسٹک انسانوں میں اسی طرح کی رکاوٹ کا باعث بن سکتا ہے یا نہیں۔ تحقیق کے مطابق مائیکرو پلاسٹک جسم کے تقریباً ہر حصے بشمول پھیپھڑوں، بون میرو وغیرہ میں پائے گئے ہیں۔ خون کی گردش میں مائکرو پلاسٹکس خلیات میں رکاوٹ پیدا کرتے ہیں اور دماغ کے اعصاب کو روکتے ہیں۔