آسٹریلیا کی حکومت نے ملک میں 16 سال سے کم عمر کے بچوں پر سوشل میدیا کے استعمال پر پابندی لگانے کی تیاریاں شروع کردی ہیں۔
اے ایف پی کے مطابق آسٹریلیا کے قومی نشریاتی ادارے اے بی سی سے بات کرتے ہوئے وزیر اعظم اینتھونی البانیز نے نوجوانوں پر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے اثرات کو “لعنت” قرار دے دیا۔۔
اینتھونی البانی نے کہا کہ فیس بک، انسٹاگرام اور ٹک ٹاک جیسی سائٹس میں لاگ ان کرنے کے لیے بچوں کی کم از کم عمر کا فیصلہ نہیں کیا گیا ہے لیکن امید ہے کہ اس کی عمر 14 سے 16 سال کے درمیان ہوگی۔ ان کی اپنی ترجیح 16 سال سے کم عمر کے صارفین پر پابندی لگانا ہوگی۔
آسٹریلوی وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ آئندہ چند ماہ کے دوران عمر کی تصدیق کے جانچ پڑتال کا عمل شروع کیا جائے گا۔
آسٹریلوی وزیر اعظم نے کہا کہ وہ بچوں کو اسمارٹ فونز اور دیگر ڈیواسز سے نکال کر میدانوں ، سوئمنگ پولز اور ٹینس کورٹس پر دیکھنا چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ آنے والی نسل حقیقی لوگوں کے ساتھ حقیقی چیزوں کا احساس کریں۔ سوشل میڈیا کے اثرات ایک لعنت ہے۔اس سے بہت سے نوجوانوں کے ذہنوں پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا کمپنیاں سوچتی ہیں کہ وہ ہر چیز سے بالاتر ہیں۔ یہ اپنی سماجی ذمہ داریاں نہیں نبھا رہے۔ اور ہم اس بات کو یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہیں کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز خود اقدامات اٹھائیں
دوسری جانب آسٹریلیا کے اپوزیشن لیڈر پیٹر ڈٹن نے بھی سوشل میڈیا کے استعمال کے لئے عمر کی حد کی حمایت کا اعلان کردیا ہے۔
پیٹر ڈٹن کا کہنا ہے کہ تاخیر کا ہر دن نوجوان بچوں کو سوشل میڈیا کے نقصانات اور عمر کی حد کو نافذ کرنے کے لیے ٹیک کمپنیوں پر انحصار کرنے کا وقت دیتا ہے۔
پابندی ممکن نہیں: ماہرین
دوسری جانب تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ آن لائن عمر کی حد کو نافذ کرنا تکنیکی طور پر ممکن نہیں۔
یونیورسٹی آف میلبورن کے کمپیوٹنگ اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ٹوبی مرے نے کہا کہ عمر کی توثیق کے طریقے ناقابل بھروسہ ہونے کے ساتھ ساتھ صارف کی رازداری کے لئے خطرہ ہیں۔
تجزیہ کاروں نے خبردار کیا کہ عمر کی حد کسی بھی صورت میں پریشان بچوں کی مدد نہیں کر سکتی۔
کوئینز لینڈ یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی میں ڈیجیٹل میڈیا ریسرچ سینٹر کے سربراہ ڈینیئل اینگس نے کہا کہ یہ پابندی نوجوانوں کو ڈیجیٹل دنیا میں بامعنی اور صحت مند شرکت سے باہر کر کے سنگین نقصان کا باعث بھی بن سکتی ہے ۔
ایڈیلیڈ یونیورسٹی میں تعلیم کی سینئر ماہر سماجیات سمانتھا شولز نے کہا سوشل میڈیا نوجوانوں کی زندگی کا ایک ناگزیر حصہ ہے۔ نوجوانوں پر پابندیاں عائد کرنے سے بہتر میڈیا پلیٹ فارمز کو قواعد و ضوابط کاپابند بنانا ہے۔