اہم ترین

کیا ایک ہیڈ کانسٹیبل کے بیان پر سابق وزیر اعظم کو غدار مان لیں: سپریم کورٹ

سپریم کورٹ کے جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے ہیں کہ کیا ایک ہیڈ کانسٹیبل کے بیان پر سابق وزیر اعظم کو غدار مان لیں۔

جسٹس جمال خان مندوخیل کی سربراہی میں جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے 9 مئی کو راولپنڈی میں واقع حمزہ کیمپ پر حملے اور توڑپھوڑ کے الزام میں گرفتار ملزمان اویس، سیف اللہ، نصراللہ، کامران اور وقاص کی درخواست ضمانت پر سماعت کی۔

سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے پولیس اور پراسیکیوشن کی ناقص تفشیش پر سرزنش کی۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ کیا ریلی نکالنا یا سیاسی جماعت کا کارکن ہونا جرم ہے۔ طلبہ یونین اور سیاسی جماعتوں پر پابندیاں لگانے سے ہی آج یہ بربادی ہوئی ہے۔

مقدمے میں دہشتگردی کی دفعات شامل کرنے سے متعلق سوال پر پنجاب حکومت کے وکیل کا کہنا تھا کہ ملزمان نے آئی ایس آئی کے کیمپ پر حملہ کیا۔ اس پر جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ ’آپ کو پھر علم ہی نہیں کہ دہشتگردی ہوتی کیا ہے۔ دہشتگردی سانحہ آرمی پبلک اسکول پشاور اور کوئٹہ کچہری میں ہوئی تھی، ریلیاں نکالنا کہاں سے دہشتگردی ہو گئی؟

پنجاب حکومت کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ سپیشل برانچ لاہور کا ایک ہیڈ کانسٹیبل بھی اس مقدمے میں گواہ ہے جس پر جسٹس مندوخیل نے کہا کہ واقعہ راولپنڈی کا ہے اور گواہ لاہور کا؟۔ کیا ایک ہیڈ کانسٹیبل کے بیان پر سابق وزیراعظم کو غدار مان لیں؟‘ان کا کہنا تھا کہ خدا کا خوف کریں، یہ کس طرف جا رہے ہیں۔کیس کا پولیس خود ستیاناس کر دیتی ہے۔۔

جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ ملزمان پر فائرنگ کا بھی الزام ہے مگر کوئی اسلحہ برآمد ہوا نہ پولیس زخمی ہوئی۔

سماعت کے بعد عدالت نے پانچوں ملزمان کی ضمانت کی درخواست 50، 50 ہزار کے مچلکوں کے عوض منظور کر لی۔

پاکستان