اہم ترین

ہوا اور شمسی توانائی سے بجلی کی پیداوار: پوری دنیا ایک طرف اور چین ایک طرف

دنیا کی دوسری سب سے بڑی معاشی طاقت چین دنیا میں مضر گیسوں (گرین ہاؤس)کے اخراج میں بھی سب سے آگے ہے، لیکن چین ان گیسوں کے اخراج کو روکنے کے لئے ہوا اور شمسی توانائی سے بجلی کی پیداوار کے اتنے منصوبے مکمل کررہا ہے جتنے پوری دنیا مل کر بھی بنارہی۔۔

چین نے 2030 تک کاربن کے اخراج کو عروج پر اور 2060 تک خالص صفر تک پہنچانے کا عہد کیا ہے۔

چین نے حالیہ چند ماہ کے دوران شدید موسم کی کئی لہریں جھیلی ہیں ۔ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے یہ زیادہ شدید ہو گئی ہیں۔

موسمیاتی تندیلی کے نمٹنے کے لئے چین نے 2060 تک کاربن کے اخراج کو صفر کی سطح پر لانے کا ہدف مقرر رکھا ہے۔ اس کے لئے عملی اقدامات بھی جاری ہیں۔

چین میں اس وقت مجموعی طور پر قابل تجدید توانائی کے ذریعے 339 گیگا واٹ (جی ڈبلیو) بجلی کے منصوبے زیر تعمیر ہیں، جس میں 159 گیگا واٹ ہوا اور 180 گیگا واٹ شمسی توانائی کے منصوبے شامل ہین ۔

امریکی این جی او گلوبل انرجی مانیٹر کے مطالعے کے مطابق چین میں قابل تجدید توانائی کے اتنے منصوبے پوری دنیا کے مقابلے میں تقریباً دگنا ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چین میں قابل تجدید توانائی کے منصوبوں کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس فہیرست میں شامل دوسرے نمبر پر موجود ملک امریکا قابل تجدید توانائی سے صرف 40 گیگاواٹ بجلی بنا رہا ہے۔

امریکمی این جی او کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ چین نے اعلان کردہ شیڈول کے مطابق ایک تہائی منصوبوں پر کام شروع کردیا جب کہ دنیا بھر میں یہ شرح صرف 7 فیصد ہے۔ تعمیراتی شرحوں میں واضح تضاد قابل تجدید ذرائع کے منصوبوں کی تعمیر کے لیے چین کے عزم کو ظاہر کرتا ہے۔

چین میں بجلی کی کل پیداوار کا سب سے بڑا حصہ کوئلے کے پلانٹس میں بنتا ہے، تاہم چین میں رواں برس ہوا اور شمسی توانائی سے بجلی کی پیداواری صلاحیت کوئلے سے آگے نکل جائے گی۔

دوسری جانب بین الاقوامی ادارے سینٹر فار ریسرچ آن انرجی اینڈ کلین ایئر (سی آر ای اے) نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ چین نے 2024 کی پہلی ششماہی میں کوئلے سے فولاد سازی کے منصوبوں کے لیے کوئی نیا اجازت نامہ جاری نہیں کیا۔ ستمبر 2020 میں کارکن کے اخراج کو روکنے کے اعلان کے بعد ششماہی بنیادوں پر یہ پہلا موقع ہے کہ جب کوئی نیا پرمٹ نہیں دیا گیا۔

پاکستان