اہم ترین

بنگلا دیش میں حالات بے قابو ہونے کے بعد کرفیو نافذ

بنگلا دیش میں سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم کے خلاف چند روز سے جاری احتجاج بے قابو ہونے کے بعد کرفیو نافذ کردیا گیا ہے۔

غیر ملکی خبر ایجنسی کے مطابق ملک کی سرکاری نوکریوں میں کوٹہ سسٹم کو 2018 میں طلبہ کے احتجاج کے بعد ختم کر دیا گیا تھا۔ تاہم رواں برس اسے دوباری بحالکیا گیا جس پر ملک بھر کے طلبہ ایک مرتبہ پھر سڑکوں پر آگئے۔

وزیر اعظم حسینہ واجد نے کوٹہ سسٹم کی مخالفت کرنے والوں کو 1971 میں پاکستان کے ہمدروں سے تشبیہہ دی تو معاملہ بگڑ گیا۔۔

گزشتہ ایک ہفتے کے دوران ملک بھر میں پرتشدد واقعات کے دوران اب تک 115 افراد ہلاک ہوچکے ہیں جب کہ ہزاروں زخمی ہیں۔ گزشتہ روز مظاہرن نے ایک جیل پر دھاوا بول کر 100 سے قریب قیدی بھی چھڑا لئے تھے۔

حالات مزید بے قابو ہونے کے بعد حکموت نے ملک بھر میں کرفیو نافذ کردیا ہے۔ کرفیو کی خلاف ورزی کو دیکھتے ہی گولی ماردینے کا حکم ملا ہے۔

جرمن ویب سائیٹ ڈی ڈبلیو کے مطابق دارالحکومت ڈھاکا اور دیگر شہروں میں خلاف ورزی کرنے والے مظاہرین پر پولیس کی فائرنگ کی بھی اطلاعات ہیں۔

ملک میں کئی روز سے انٹر نیٹ بھی بند ہے، جس کی وجہ سے بنگلا دیش کا مواصلاتی نظام درہم برہم ہو کر رہ گیا ہے۔ ہر قسم کی سرکاری اور غیر سرکاری ویب سائیٹس بند ہیں ۔ یہاں تک کہ ریاستی نشریاتی ادارہ بنگلہ دیش ٹیلی ویژن بھی آف لائن ہےَ

سیاسی تجزیہ کار وں کا کہنا ہے کہ حالیہ احتجاج گزشتہ پندرہ سال سے بنگلا دیش میں برسر اقتدار وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کی آمرانہ طرز حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔

شیخ حسینہ واجد کے دور حکومت میں ملک نے اقتصادی میدان میں بڑی ترقی کی لیکن سیاسی میدان میں حزب اختلاف کی آواز کو دبانے کی وجہ سے ملک میں بہر بے چینی پائی جاتی ہے۔

پاکستان