اہم ترین

مصنوعی ذہانت ہمارے سارے قدرتی وسائل کی دشمن

آج کل ہر جگہ مصنوعی ذہانت (اے آئی)کا چرچا ہے۔ یہ ٹیکنالوجی کمپیوٹر سسٹم کو انسان جیسا ذہین ظاہر کرنے کی صلاحیت دیتی ہے۔ اس کی وجہ سے کئی طرح کے کام بالکل آسان ہوگئے ہیں۔ لیکن آج دنیا تکنیکی ترقی کی نئی بلندیوں کو چھو رہی ہے توایک سوال بار بار اٹھتا ہے کہ کیا مصنوعی ذہانت انسانیت کے لیے نعمت ہے یا زحمت؟

جیسے جیسے مصنوعی ذہانت ترقی کر رہی ہے، اس کے لاتعداد فائدے ہمیں نظر آ رہے ہیں۔ لیکن ساتھ ہی خطرے کے سائے بھی گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔

گوگل کی سالانہ ماحولیاتی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اے آئی کا حد سے زیادہ استعمال نہ صرف آپ کے کام بلکہ ماحولیات اور انسانی تہذیب کے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔

آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ مصنوعی ذہانت ہماری بنیادی ضروریات جیسے بجلی اور پانی کی کھپت میں اضافہ کر رہا ہے جس سے آنے والے چند برسوں میں قدرتی وسائل پر بہت زیادہ دباؤ پڑ سکتا ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ جدید ٹیکنالوجی ہماری تباہی کا سبب بن جائے۔

گوگل کی سالانہ ماحولیاتی رپورٹ میں چونکا دینے والے اعداد و شمار سامنے آئے ہیں۔ اس اعداد و شمار کے مطابق سال 2022 کے مقابلے 2023 میں گوگل کے ڈیٹا سینٹرز سے کاربن کے اخراج میں 13 فیصد اضافہ ہوا ہے جب کہ 17 فیصد زیادہ بجلی استعمال ہوئی ہے۔

ماہرین کے مطابق دنیا میں جیسے جیسے اے آئی ٹولز کا استعمال بڑھتا جائے گا ۔ اسی طرح ہمارے ماحول میں کاربن کا اخراج اور بجلی کی کھپت بڑھتی جائے گی۔

گوگل نے اپنی رپورٹ میں اے آئی اور ماحولیات کے درمیان تعلق کی وضاحت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ جب ہم اے آئی چیٹ بوٹ چیٹ جی پی ٹی سے کسی بھی سوال پوچھتے ہیں تو یہ گوگل سرچ کے مقابلے میں 10 سے 33 گنا زیادہ توانائی استعمال کرتا ہے۔

یہ صرف ایک چیٹ جی پی ٹی کا معاملہ ہے۔ اسی طرح تصویر کشی والے اے آئی چیٹ بوٹ بھی زیادہ توانائی استعمال کرتے ہیں۔

ڈیٹا پروسیسنگ، اسٹور اور بازیافت کرنے کے دوران کمپیوٹر کو زیادہ توانائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ بھاری کام کے بوجھ سے پیدا ہونے والی گرمی کو کم کرنے کے لیے، ڈیٹا سینٹرز زیادہ طاقتور ایئر کنڈیشنگ اور ٹھنڈک کے دیگر اقدامات استعمال کرتے ہیں۔

امریکا کی یونیورسٹی آف کیلیفورنیا ریور سائیڈ کے مطابق 2022 میں گوگل نے اپنے ڈیٹا سینٹرز کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے تقریباً 20 ارب لیٹر میٹھا پانی استعمال کیا۔ 2023 میں مائیکروسافٹ کے پانی کے استعمال میں گزشتہ سال کے مقابلے میں 34 فیصد اضافہ ہوا ہے۔اس وقت کتنی بجلی اور پانی استعمال ہو رہا ہے۔

یونیورسٹی آف کیلیفورنیا ریور سائیڈ کی رپورٹ کے مطابق اس وقت ڈیٹا سینٹرز کی کھپت عالمی بجلی کی کھپت کا 1 سے 1.3 فیصد ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ جیسے جیسے اے آئی ٹولز کا استعمال بڑھ رہا ہے، بجلی کی کھپت میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ بین الاقوامی توانائی ایجنسی کے مطابق آنے والے چند سال میں بجلی کی کھپت تین فیصد تک جا سکتی ہے۔

بجلی اور پانی کی قیمت پر اے آئی کا استعمال

ڈیٹا سینٹر کے تقاضے: اے آئی کو بہت زیادہ ڈیٹا پروسیسنگ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس ڈیٹا کو ذخیرہ کرنے، پروسیس کرنے اور تجزیہ کرنے کے لیے ہائی پاور ڈیٹا سینٹرز کی ضرورت ہوتی ہے، یہ ڈیٹا سینٹرز چوبیس گھنٹے چلتے ہیں اور بہت زیادہ بجلی استعمال کرتے ہیں۔

کلاؤڈ کمپیوٹنگ: جب بہت سارے صارفین بیک وقت AI خدمات استعمال کرتے ہیں، تو اس کے لیے زیادہ کمپیوٹیشنل پاور اور اسٹوریج کی ضرورت ہوتی ہے، جس سے بجلی کی کھپت میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔

ایج کمپیوٹنگ: اے آئی کے تیزی سے بڑھتے ہوئے استعمال کی وجہ سے، ایج ڈیوائسز (جیسے اسمارٹ فونز، اسمارٹ ہوم ڈیوائسز) میں اے آئی پروسیسنگ کی مانگ بھی بڑھ رہی ہے۔ اگرچہ یہ آلات خود کوڈ پروسیسنگ کر سکتے ہیں، لیکن اس کے لیے بھی بجلی کی ضرورت ہوتی ہے۔

اے آئی پر مبنی مشین لرننگ ماڈلز: اے آئی ماڈلز کو کئی بار تربیت دی جاتی ہے۔ یہ تربیتی عمل کافی توانائی کے حامل ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر، ایک بڑے زبان کے ماڈل کو ترتیب دینے میں کئی مہینے لگ سکتے ہیں، اور اس عمل میں بہت زیادہ توانائی خرچ ہوتی ہے۔

آٹومیشن اور روبوٹکس: اے آئی کا استعمال آٹومیشن اور روبوٹکس کا استعمال بھی بڑھا رہا ہے، جنہیں چلانے کے لیے بھی بجلی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اے آئی صنعتی روبوٹس، خودکار گوداموں اور اسمارٹ فیکٹریوں میں استعمال ہو رہا ہے، جس سے بجلی کی طلب میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔

پاکستان میں بھی اے آئی کا استعمال بڑھ رہا ہے

پاکستان پہلے ہی توانائی کے بحران کا شکار ہے۔ مہنگی بجلی نے عوام کی زندگی اجیرن کرکے رکھ دی ہے۔ وطن عزیز میں اے آئی کے استعمال سے متعلق کوئی ڈیٹا دستیاب نہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں بھی اس کا استعمال بڑھ رہا ہے۔

پاکستان کا شمار ان ملکوں میں ہوتا ہے جو آئی ٹی کے ذریعے سالانہ کروڑوں ڈالر کمارہے ہیں اور اس میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے۔ آئی ٹی پراڈکٹس بڑھنے کا مطلب اے آئی کا استعمال بھی لیا جاسکتا ہے۔

کاربن کے اخراج میں پانچ سے دس فیصد کمی

اریکی تھنگ ٹینک بوسٹن کنسلٹنگ گروپ کی ایک تحقیق میں کہا گیا ہے کہ کارپوریٹ اور صنعتی کاموں میں اے آئی کے استعمال سے سال 2030 تک عالمی سطح پر کاربن کے اخراج میں پانچ سے دس فیصد تک کمی لائی جا سکتی ہے ۔ اس کے علاوہ 2600 ارب ڈالر بھی بچائے جا سکتے ہیں۔

بجلی کی کھپت الیکٹرک گاڑی سے زیادہ

اے آئی اور ٹیکنالوجی کے استعمال میں خرچ ہونے والی بجلی کے برعکس الیکٹرک گاڑیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے باوجود، ای گاڑیوں کی عالمی بجلی کی کھپت صرف 0.5 فیصد ہے۔

اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ آپ کتنی ہی کوشش کریں، اے آئی آپ کے سوشل میڈیا اور انٹر نیٹ براؤزنگ اور آن لائن خریداری سمیت ہر فیصلے میں مداخلت کرتا ہے۔ آپ کی ٹائم لائن پر کیا نظر آئے گا، کون سا نوٹیفکیشن آئے گا، یہ سب اے آئی طے کرتا ہے۔ یہ آپ کے ماضی کے رویے، انٹرنیٹ کی تلاش، آپ کی پسند کی چیزوں، آپ کی دیکھی گئی ویڈیوز اور بہت کچھ پر نظر رکھتا ہے۔

پاکستان