اہم ترین

ڈیسیلینیشن پلانٹس، پانی کی کمی کا شکار سعودی عرب کیلیے زندگی کی ڈور

سعودی عرب جغرافیائی اعتبار سے ایسے خطے پر مشتمل ہے جہاں بارش کم ہوتی ہیں، جھیلیں اور دریا بھی نہیں۔ اس کے لئے خلیج فارس ، بحیرہ عرب اور بحیرہ احمر کے کھارے پانی کو پینے کے قابل بنایا جاتا ہے۔ اگر ایسا نہ کیا جائے تو سعودی عرب کے ترقی کرتے شہروں اور قصبوں میں زندگی ہی ختم ہوجائے۔۔ سعودی عرب ولی عہد محمد بن سلمان کے وژن کے مطابق ترقی کی شاہراہ پر تیزی سے گامزن ہے جس کے مطابق 2060 تک مملکت میں کاربن کا اخراج صفر کرنا ہے۔

ولی عہد محمد بن سلمان کے وژن کے مطابق تیز رفتار ترقی سے مملکت کی آبادی 2040 میں ساڑھے 3 کروڑ سے بڑھ کر 10 کروڑ ہوجائے گی۔ جن کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے قابل تجدید توانائی سے چلنے والے منصوبے بڑے پیمانے پر لگائے جانے کی ضرورت ہے۔

سعودی عرب میں ایک صدی پہلے عثمانی حکمرانوں نے حاجیوں کو پانی کی فراہمی اور پیٹ کی بیماریوں سے بچانے کے لیے فلٹریشن پلانٹ لگانے کا اۤغاز کیا تھا۔ جُبیل میں سمندری پانی کو پینے کے قابل بنانے والا پلانٹ اسی طرح اپنے وقت کی جدید ترین تکنیک کے استعمال کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

سعودی حکام کا کہنا ہے کہ جزلہ واٹر ڈی سیلینیشن پلانت شمسی توانائی کے ذریعے سمندری پانی کو پینے کے قابل بنانے کا بڑا منصوبہ ہے جس سے ہر سال 60 ہزار ٹن کاربن کے اخراج رک جائے گا۔

جزلہ پلانٹ کو چلانے والی کمپنی ایکوا پاور کے سی ای او مارکو آرسیلی کا کہنا ہے کہ آبادی بڑھتی ہے، اور پھر ریاستوں کو اس آبادی کے معیار زندگی کو بلند رکھنے کے لیے منصوبہ بندی کے ساتھ کام بھی کرنا پڑتا ہے۔

سعودی عرب میں پانی کی کمی سے لڑنے والی حکومت کے اقدامات پر نظر رکھنے والے یوٹاہ یونیورسٹی کے مؤرخ مائیکل کرسٹوفر لو کہتے ہیں کہ سعودی عرب کی ترقی کی رفتار کو برقرار رکھنے کے لیے وہاں کے حکمرانوں کے لیے ڈی سیلینیشن “کرو یا مرو” کا چیلنج ہے۔ لیکن قابل تجدیدی توانائی سے پانی کی فراہمی کی بھی ایک حد ہی ہوتی ہے۔

پینے کے پانی کی تلاش نے 1932 میں اپنے قیام کے بعد سے ہی سعودی حکمرانوں پریشان کئے رکھا۔ اس سلسلے میں ماہرین نے ارضضیاتی سروے کئے جس کا فائدہ انہیں تیل کے ذخائر کی دریافت کی صورت میں ہوا۔

سعودی عرب کے سابق فرما روا شاہ فیصل کے بیٹے شہزادہ محمد الفیصل نے تو ایک وقت میں عوام کی پیاس بجھانے کے لئیے انٹارکٹیکا سے برفیلے ٹیلوں کو کھینج کر لانے کا امکان بھی تلاش کیا ۔ لیکن انہوں نے ہی 1970 کی دہائی میں مملکت کے جدید ڈی سیلینیشن انفراسٹرکچر کی تعمیر کی بھی نگرانی کی۔

سعودی عرب کا نیشنل سیلائن واٹر کنورزیشن کارپوریشن اس وقت 30 منصوبوں سے یومیہ ایک کروڑ 15 لاکھ مربع میٹر پانی ملک کے مختلف علاقوں کو فراہم کررہا ہے۔ اس کی قیمت بڑے پیمانے پر تیل استعمال کرکے چکائی جارہی ہے۔

2010 میں ڈیسیلینیشن پلانٹس میں یومیہ 15 لاکھ بیرل تیل صرف ہوتا تھا جو کہ آج سعودی عرب کی یومیہ تیل کی پیداوار سے 15 فیصد زیادہ ہے۔

ماہرین کو پانی کی ڈی سیلینیشن کی صلاحیت میں اضافے کے حوالے سے سعودی عرب کی کامیابی پر ابہام ہے لیکن دوحہ انسٹی ٹیوٹ فار گریجویٹ اسٹڈیز کے لارینٹ لیمبرٹ کہتے ہیں کہ سعودی حکومت ماضی میں بھی انتہائی مشکل حالات میں ایسی نوعیت کی کام پایہ تکمیل تک پہنچا چکے ہیں جس کی مثال بحیرہ احمر کا پانی صاف کرکے اسے بڑی پیمانے پر مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ پہنچانا ہے۔

نیشنل سیلائن واٹر کنورزیشن کارپوریشن کے حکام کہتے ہیں کہ وہ 2025 تک کاربن کے اخراج میں 37 ملین میٹرک ٹن کمی لانا چاہتے ہیں۔ اسیا جزلہ پلانٹ جیسے منصوبوں سے ہی ممکن ہے۔ جلد ہی شمسی تروانائی سے بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت 120 میگا واٹ سے 770 میگاواٹ تک پہنچ جائے گی۔

ان ڈی سیلینیشن پلانٹس میں کام کرنے والوں کو اس بات کا بخوبی اندازہ ہے کہ ملک کی ۤبادی کی بقا کے لیے ان کا کام کتنا اہم ہے۔

دارالحکومت ریاض میں پانی کی یومیہ طلب 16 لاکھ کیوبک میٹر ہے جس میں سے سب سے زیادہ پانی راس الخیر پلانٹ سے 11 لاکھ مربر میٹر آتا ہے۔ پلانٹ کے ذخائر میں کمی میں سوچا بھی نہیں جاسکتا ۔ پلانٹ میں کام کرنے والے افراد کا کہنا ہے کہ 2030 تک ریاض میں پانی کی کھپت یومیہ 60 لاکھ مربع میٹر تک پہنچ سکتی ہے۔ اگر یہ پلانٹ نہ ہوتا تو ریاض مر جاتا ۔

پاکستان