اہم ترین

آئین اللّٰہ کے نام سے شروع ہوتا ہے سپریم کورٹ کی آزادی سے نہیں ، چیف جسٹس

سپریم کورٹ کا 15 رکنی فل کورٹ بینچ چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجرل ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر سماعت کررہا ہے۔

ملک کی تاریخ میں پہلی بار کسی مقدمے کی سماعت براہ راست سرکاعی ٹی وی پر نشر کی جارہی ہے۔

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجرل ایکٹ کیا ہے؟

پی ڈی ایم کی گزشتہ حکومت نے عدلیہ کے اختیارات سے متعلق قانون پارلیمنٹ سے منظور کرایا تھا لیکن اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا گیا تھا۔۔

ایکٹ کے نافذ ہوتے سے قبل ہی سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے آٹھ رکنی لارجر بینچ نے اسے معطل کردیا تھا۔۔

سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں آٹھ رکنی لارجر بینچ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر حکم امتناع جاری کیا تھا۔۔

ایکٹ کے مطابق کسی بھی معاملے پر از خود نوٹس لینے اور عدالتی بینچ کی تشکیل کا اختیار چیف جسٹس کے بجائے 3 سینیئر ترین جج پر مشتمل کمیٹی کو سونپا گیا ہے۔

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجرل ایکٹ پر اعتراض
سپریم کورٹ میں اس ایکٹ کے خلاف درخواستیں دائر کی گئی ہیں جن میں موقف اختیار کیا گیا ہے یہ قانون سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے اختیارات سلب کرنے کی سازش اور شہریوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے

گزشتہ سماعتوں میں کیا ہوا ؟
سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں آٹھ رکنی لارجر بینچ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر حکم امتناع جاری کیا تھا۔

نئے چیف کے پہلے ہی دن تاریخ رقم

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے گزشتہ روز ہی فل کورٹ بینچ تشکیل دے دیا تھا۔۔ جس نے فیصلہ کیا کہ کیس کی سماعت براہ راست ٹی وی نشر کی جائے۔۔

” پارلمینٹ نے سپریم کورٹ کے رولز میں مداخلت کی”

سماعت کے دوران درخواست کے وکیل خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ فیڈرل لیجسلیٹیو لسٹ کے شیڈول 4 کے مطابق سپریم کورٹ اپنے پریکٹس اینڈ پروسیجر کے ضوابط خود بناتی ہے۔۔ سپریم کورٹ نے فل کورٹ کے ذریعے اپنے رولز بنا رکھے تھے۔۔ پارلمینٹ نے سپریم کورٹ کے رولز میں مداخلت کی۔۔یہ درخواست عوامی مفاد میں لائی گئی ہے۔پارلیمنٹ نے 3 ججز کی کمیٹی بنا کر عوامی مقدمات کے فیصلے کی قانون سازی کی۔

“آرٹیکل 184/3 جوڈیشل پاور سے متعلق ہے”

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 184/3 جوڈیشل پاور سے متعلق ہے۔ اس قانون سے عدالت کواپنے اختیارات استعمال کرنے سے روکنے کی کوشش کی گئی۔۔میرے مطابق پارلیمنٹ عدالتی اختیارات میں مداخلت کررہی ہے۔کیا پارلیمان عدالتی انتظامی اختیارات سے متعلق قانون بناسکتی ہے ؟آٸین پاکستان 1973میں عدلیہ کی آزادی کا ذکر ہوا ہے۔
دوران سماعت جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ اگر ایگزیکٹیو رولز بنانے کا اختیار رکھتا ہے تو کیا پارلیمنٹ جوڈیشل اختیار ختم کر رہی ہے؟ پارلیمنٹ عدالتی قواعد بھی بنائے تو یہ عدالت کو ریگولیٹ کرنے کا اختیار بھی ان کے پاس چلا جائے گا۔اگر اس قانون کو درست مان لیں تو پوری سپریم کورٹ پارلیمنٹ کے ہاتھ میں چلی جائے گی۔ ہر اختیار پارلیمنٹ کو نہیں دیا جا سکتا، ۔۔

ایک قانون اس وقت تک قابل عمل ہےجب تک غلط ثابت نہ کردیاجائے

آرٹیکل 184/3میں ہمیں مفادعامہ اوربنیادی حقوق دونوں کو دیکھنا ہے، ایک قانون اس وقت تک قابل عمل ہےجب تک غلط ثابت نہ کردیاجائے، یہ ثابت کرنےکی ذمہ داری اس پرہےجوقانون کوچیلنج کرے،

“مناسب ہوگا کہ سپریم کورٹ کےاختیارات کامعاملہ ہائیکورٹ سنے؟”

دوران سماعت جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ سوال یہ ہےکہ کونسا بنیادی حق متاثرہوتاہے؟، کیایہ مناسب ہوگا کہ سپریم کورٹ کےاختیارات کامعاملہ ہائیکورٹ سنے؟

“کیا قانون سے چیف جسٹس کا عہدہ بے کار ہو گیا ہے؟”

جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ کیا قانون سازی کے ذریعے چیف جسٹس کے اختیارات کو غیر مؤثر کیا جا سکتا ہے؟ کیا قانون سے چیف جسٹس کا عہدہ بے کار ہو گیا ہے؟۔

آئین کے تابع ہونے کا حلف اٹھایا ہےسپریم کورٹ کے فیصلوں کے تابع ہونے کا نہیں

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے درخواست گزار کی وکیل کی جانب سے دلائل پر ریامرکس دیئے کہ میں نے آئین اور قانون کے تابع ہونے کا حلف اٹھایا ہے، سپریم کورٹ کے فیصلوں کے تابع ہونے کا حلف نہیں لیا، آپ کہتے ہیں کہ آئین نہیں فیصلہ پڑھیں گے، اس ملک میں مارشل لاء بھی لگے اس دوران بھی فیصلے آئے، مارشل لاء دور کے عدالتی فیصلوں کا میں تو پابند نہیں، کوئی اور ہو تو ہو۔آئین اللّٰہ کے نام سے شروع ہوتا ہے، سپریم کورٹ کی آزادی سے نہیں۔

پاکستان