اسرائیل نے گزشتہ ماہ ایک ہفتے کی جنگ بندی کے بعد یکم دسمبر سے ایک مرتبہ پھر غزہ میں فلسطینیوں کو نشانہ بنانا شروع کردیا ہے۔۔ ہر روز سیکڑوں بے گناہ شہری لقمہ اجل بن رہے ہیں۔ اسرائیل کا نشانہ بننے والوں میں 70 فیصد خواتین اور بچے ہیں۔
فرانسیسی خبر ایجنسی فرانس 24 میں شائع ہو نے والی رپورٹ کے مطابق صیہونی حکومت نے 3 دسمبر کو غزہ پر اپنے زمینی حملے کا دوسرا مرحلہ شروع کیا ۔۔ جب اسرائیلی ٹینک جنوبی غزہ میں داخل ہوئے تو اس کے ساتھ ہی اسرائیلی فوجیوں کو حماس کے جنگجوؤں کی جانب سے نئی حکمت عملی کے تحت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔۔
امریکی تھنک ٹینک انسٹی ٹیوٹ فار اسٹڈی آف وار (ISW) کے مطابق، یکم دسمبر کو غزہ کی پٹی میں جنگ بندی ختم ہونے کے بعد سے حماس نے اسرائیلی افواج کے خلاف جدید ترین حربے استعمال کیے ہیں۔ جن میں بمبار ڈرون اور ٹینک شکن ہتھیاروں جیسے جدید آلات حرب بھی شامل ہیں۔۔
انسٹی ٹیوٹ فار اسٹڈی آف وار کے مطابق جنگ بندی کے خاتمے کے بعد حماس اور اس کی اتحادی جنگجو تنظیموں نے 7 اکتوبر سے شروع ہونے والی اسرائیلی جارحیت اور ان کے طور طریقوں کو سمجھتے ہوئے اپنے ہتھیاروں اور حکمت عملی کو جدید شکل دی ہے۔
حماس کا سب سے زیادہ مہلک اور اثر انگیز ہتھیار دھماکا خیز مواد سے بھرے ایسے راکٹ ہیں جو جدید ترین بکتر بندوں کو بھی پھاڑ دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
تھنک ٹینک آئی ایس ڈبلیو کے مطابق حماس نے اکتوبر اور نومبر کے دوران دفاعی زبان میں ایکسپلوزیو فارمڈ پینیٹریٹرز (EFP) کہے جانے والے ان راکٹوں کا استعمال صرف دو بار کیا لیکن گزشتہ یکم سے 5 دسمبر کے دوران اسے کم از کم 5 مرتبہ استعمال کیا گیا۔
جنیوا یونیورسٹی سے منسلک گلوبل اسٹڈیز انسٹی ٹیوٹ کے دفاعی ماہر الیگزینڈر واٹراورز کے مطابق دور جدید میں ایکسپلوزیو فارمڈ پینیٹریٹرز (EFP) کی تین قسمیں سب سے زیادہ استعمال ہوتی ہیں۔ لیکن فولاد کو چھیدنے والا راکٹ سب سے عام ہے جو 10 سے 40 میٹر کے فاصلے میں انتہائی مہلک ثابت ہوتا ہے۔
آئی ایس ڈبلیو کے مطابق حماس کے پاس موجود راکٹوں کی اقسام ابھی واضح نہیں لیکن اس کے نتائج سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ہتھیار فولاد کی بہت موٹی چادر کو بھی پھاڑ دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
دنیا کو درپیش ہونے والے سیکیورٹی چیلنجز سے نمٹنے کے لئے قائم غیر منافع بخش ادارے “بین الاقوامی ٹیم فار دی اسٹڈی آف سیکیورٹی (ITSS) ویرونا ” میں مشرق وسطیٰ کے جیو پولیٹکس کے ماہر عمری برنر نے حماس کے راکٹوں کی افادیت کے حوالے سے کہا کہ اسرائیلی ٹینکوں پر حملے روکنے کے لئے 2000 کی دہائی میں تیار کیا گیا دفاعی نظام اپنا ثانی نہیں رکھتا ۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ دفاعی نظام ہر ٹینک میں نصب نہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ حماس کا تیار کردہ راکٹ آواز کی رفتار سے زیادہ تیزی سے اپنے ہدف کی طرف بڑھتا ہے ۔ جس کی وجہ سے راکٹ حملوں سے بچاؤ کا دفاعی نظام کارگر ثابت نہیں ہوتا۔
یہاں یہ سوالات جنم لیتے ہیں کہ حماس نے اسرائیلی نظام کو توڑنے والے ایسے ہتھیار آخر کیسے حاصل کئے۔ انسٹی ٹیوٹ فار دی اسٹڈی آف وار کے مطابق حماس جو راکٹ استعمال کرتی ہے وہ غزہ کی پٹی میں ہی تیار کئے جاتے ہیں۔
ٹینک شکن راکٹ کے علاوہ ایک اور ہتھیار بھی بڑا دور رس نتائج دے رہا ہے اور وہ ہے بارودی مواد لے جانے والا خودکش ڈرون ۔۔
2 دسمبر کو حماس کی جانب سے جاری ویڈیوز میں واضح طور پر دکھایا گیا ہے کہ اسرائیل کے خلاف سینہ سپر یہ جنگجو صیہونی افواج کو نشانہ بنانے کے لیے ڈرون کا استعمال کرتے ہیں۔
خودکش ڈرونز کا استعمال بھی حماس کی فوجی صلاحیت میں ایک اور تکنیکی پیشرفت کی نشاندہی کرتا ہے۔
برطانیہ کی پورٹس ماؤتھ یونیورسٹی میں اسرائیل-فلسطین تنازع کے عسکری پہلوؤں کی ماہر ویرونیکا پونسجاکووا کہتی ہیں کہ حماس کئی برسوں سے ڈرون تیار اور اس کا استعمال کر رہی ہے لیکن اس سے پہلے کبھی بھی اتنے مؤثر طریقے سے انہیں استعمال نہیں کیا گیا تھا۔
ویرونیکا پونسجاکووا کا کہنا ہے کہ مستقبل قریب میں حماس بھی وہی حکمت عملی استعمال کرسکتی ہے جو اسرائیل فوج عام طور پر کرتی ہے۔ تاکہ ان خودکش ڈرون کے ذریعے اسرائیلی افواج کو “براہ راست تصادم سے پہلے” نشانہ بنایا جا سکے۔
دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ بہترین ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ حماس جنوبی غزہ میں اسرائیل کے خلاف نئی حربی حکمت عملی پر بھی عمل پیرا ہے۔
انسٹی ٹیوٹ فار دی اسٹڈی آف وار کے مطابق یکم دسمبر سے حماس اور اس کی اتحادی تنظیمیں حملے کرنے کے بجائے دفاعی حکمت عملی اپنا رہے ہیں اور یہ جان بوجھ کر کیا جارہا ہے۔ کیونکہ اسرائیل نے اب جنوبی غزہ کو میدان جنگ بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ حماس اور دیگر جنگجو تنظیمیں بھی زمینی کارروائی کے خلاف دفاع کے لیے فیصلہ کن طور پر پرعزم ہوکر تیاری کر رہی ہیں۔
بین الاقوامی ماہرین کا کہنا ہے کہ حماس شمال کے مقابلے جنوب میں زیادہ بہادری اور عزم کے ساتھ اسرائیلی فوج کا سامنا کرسکتی ہے۔ کیونکہ یہاں ان کے اہم گولہ بارود اور ہتھیاروں کے ذخیرے موجود ہیں۔
خاص طور پر خان یونس میں حماس کو زبردست عوامی حمایت حاصل ہے کیونکہ یہ حماس کے دو اہم ترین رہنماؤں یحییٰ سنوار اور محمد دیف کا آبائی شہر ہے۔