اہم ترین

اے آئی کینسر کے خلاف سب سے درست طریقہ علاج

اے آئی اب کینسر کے علاج میں بھی مدد کر رہی ہے۔ یہ اے آئی ٹولز یہ سمجھنے میں بھی مدد کر رہے ہیں کہ کینسر کیسے کام کرتا ہے، کینسر کا پتہ کیسے لگایا جاتا ہے، نئی ادویات کیسے دریافت کی جاتی ہیں، کینسر کی نگرانی اور صحت کی دیکھ بھال فراہم کی جاتی ہے۔

کینسر ایک ایسی بیماری ہے جس نے دنیا بھر میں لاکھوں لوگوں کی جانیں لے لی ہیں۔ اس کے علاج کے لیے عام طور پر کیموتھراپی، تابکاری یا سرجری کی جاتی ہے۔ لیکن ان طریقوں کے ساتھ بہت سی حدود ہیں۔

حالیہ برسوں میں، مصنوعی ذہانت (AI) نے طبی شعبے میں انقلاب برپا کر دیا ہے۔ ایسے میں اب مصنوعی ذہانت نے کینسر کے علاج میں ایک نئی امید پیدا کردی ہے۔ لیکن کیا واقعی AI کینسر کے خلاف سب سے درست علاج بن سکتا ہے؟ آئیے گہرائی سے سمجھیں۔

مصنوعی ذہانت کیا ہے؟

کمپیوٹر اب پہلے سے کہیں زیادہ اسمارٹ ہو گئے ہیں۔ وہ اب وہ کام کر سکتے ہیں جو پہلے صرف انسان ہی کر سکتے تھے۔ جیسے سیکھنا، سوچنا اور مسائل حل کرنا۔ مشین کی اس صلاحیت کو مصنوعی ذہانت کہا جاتا ہے۔

یہ سب کیسے ہوتا ہے؟ دراصل کمپیوٹر کو خصوصی ہدایات (الگورتھم) دی جاتی ہیں۔ ان ہدایات کا استعمال کرتے ہوئے کمپیوٹر بہت سارے ڈیٹا کو دیکھ سکتے ہیں، پیٹرن تلاش کر سکتے ہیں اور مختلف چیزوں کے درمیان تعلقات کو سمجھ سکتے ہیں۔ یہ سب انسانوں کے لیے بہت مشکل ہے۔

اے آئی کینسر کے علاج میں بھی مدد کر رہا ہے؟

اے آئی اب کینسر کے علاج میں بھی مدد کر رہی ہے۔ کینسر کو سمجھنے سے لے کر مریضوں کی دیکھ بھال تک، ہر جگہ اے آئی کا استعمال ہو رہا ہے۔اے آئی ٹولز یہ سمجھنے میں بھی مدد کر رہے ہیں کہ کینسر کیسے کام کرتا ہے، کینسر کا پتہ کیسے لگایا جاتا ہے، نئی دوائیں کیسے دریافت کی جاتی ہیں۔ امریکا کا نیشنل کینسر انسٹی ٹیوٹ (این سی آئی) ان تمام چیزوں پر کام کر رہا ہے۔

اے آئی ماڈلز کو تربیت دینے کے نئے طریقے اور الگورتھم، ان اے آئی ماڈلز کو تربیت دینے کے لیے درکار کمپیوٹر ہارڈویئر میں بہتری، اور کینسر کے بہت سے ڈیٹا تک رسائی کی وجہ سے اے آئی اب کینسر کے بارے میں نئی ​​چیزیں سمجھ سکتا ہے۔ مریضوں کے ڈیٹا کو دیکھ کر ان کا علاج بہتر بنایا جا سکتا ہے۔

کینسر کی اسکریننگ اور تشخیص

مصنوعی ذہانت اب کینسر کا پتہ لگانے کے طریقوں کو تیز، درست اور قابل اعتماد بنا رہی ہے۔ اب ڈاکٹروں کو پروسٹیٹ بایپسی امیجز میں کینسر سے متاثرہ مقامات کی نشاندہی کرنے میں مدد کر رہی ہے۔ میموگرام جیسی تصویریں بہت جلد دیکھی جا سکتی ہیں جس سے ڈاکٹروں کا کافی وقت بچ جاتا ہے۔ این سی آئی کے سائنس دان پروسٹیٹ کینسر کا پتہ لگانے کے لیے بھی اے آئی کا استعمال کر رہے ہیں۔

اے آئی اب دوائیوں کی تیاری کے نئے طریقے استعمال کر رہا ہے، پرانی ادویات کو نئے طریقوں سے استعمال کر رہا ہے اور مریضوں کو یہ بھی بتا رہا ہے کہ دوائیں کتنا فائدہ دے گی۔ این سی آئی کے سائنسدان یہ سمجھنے کے لیے اے آئی کا استعمال کر رہے ہیں کہ جسم میں موجود خاص قسم کے مدافعتی خلیات (ٹی سیلز )کینسر سے کیسے لڑتے ہیں۔ اس سے یہ سمجھنے میں بھی مدد مل رہی ہے کہ دوائیں کیسے کام کرتی ہیں۔

این سی آئی اور امریکی محکمہ توانائی نے مشترکہ طور پر موزائیک کے نام سے ایک پروجیکٹ شروع کیا ہے۔ اس پروجیکٹ میں اے آئی کا استعمال کرتے ہوئے کینسر کے بارے میں معلومات کو تیزی سے این سی آئی کے ایس ای ای آر پروگرام میں فیڈ کیا جا رہا ہے۔ یہ معلومات کینسر کو روکنے، اس کا پتہ لگانے اور علاج کرنے میں مدد کر سکتی ہے۔

کینسر کے علاج کے لیے خصوصی اےآئی ٹول

نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق، سائنسدانوں نے ایک ایے آئی ٹول بنایا ہے جو مریضوں کے بارے میں عام معلومات کو دیکھ کر بتا سکتا ہے کہ کون سے مریض کینسر کے علاج میں استعمال ہونے والی ‘چیک پوائنٹ انبیشن’ دوا کے اہل ہیں۔

یہ دوا کینسر کے خلیوں کو ہمارے مدافعتی نظام تک زیادہ قابل رسائی بناتی ہے۔ لیکن یہ سب کے لیے کام نہیں کرتی۔ اس لیے سائنسدان یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ان دوائیوں سے کن مریضوں کو زیادہ فائدہ پہنچے گا۔ اگر ہمیں پہلے سے معلوم ہو جائے کہ کسی مریض کو ان دوائیوں سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا تو ہم اسے مضر اثرات سے بچا سکتے ہیں اور اسے دوسرا مناسب علاج دے سکتے ہیں۔

اب تک یو ایس ایف ڈی اے نے دو بائیو مارکر کی منظوری دی ہے جو ان ادویات سے فائدہ اٹھانے والے مریضوں کی شناخت میں مدد کرتے ہیں۔ ایک بائیو مارکر ٹیومر کے تغیراتی بوجھ کی پیمائش کرتا ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کینسر کے خلیوں میں ڈی این اے میں کتنی تبدیلیاں آئی ہیں۔ لیکن ان ٹیسٹوں کے نتائج ہمیشہ درست نہیں ہوتے۔ دوسرے ٹیسٹ ٹیومر کے مالیکیولر ڈیٹا پر انحصار کرتے ہیں، جو مہنگے ہوتے ہیں اور ہر جگہ دستیاب نہیں ہوتے۔

اے آئی اسکورنگ سسٹم کس طرح مدد کر سکتا ہے؟

یہ پروگرام دوسرے پہلے پروگراموں سے بہتر کام کرتا ہے۔ یہ پروگرام نہ صرف یہ بتا سکتا ہے کہ مریض کو اس دوا سے فائدہ ہوگا یا نہیں، بلکہ یہ بھی بتا سکتا ہے کہ مریض کب تک زندہ رہے گا۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس پروگرام سے ڈاکٹروں کو مریضوں کے لیے صحیح علاج کا انتخاب کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ لیکن ابھی بھی بڑے مطالعے کی ضرورت ہے تاکہ اس پروگرام کو ہسپتالوں میں استعمال کیا جا سکے۔

ڈاکٹر مورس این آئی ایچ کی رپورٹ میں کہتے ہیں، ہم نے بہت سے مختلف کینسر کے مریضوں کے لیے ایک نیا پروگرام بنایا ہے جو صرف چھ سادہ معلومات کے ساتھ کام کرتا ہے۔ کچھ پچھلے پروگرام بہت پیچیدہ تھے، لیکن یہ پروگرام ڈاکٹروں کے لیے اسے سمجھنا آسان بناتا ہے۔

پاکستان