بنگلا دیش کی عبوری حکومت کی جانب سے بنائے گئے تحقیقاتی کمیشن نے شیخ حسینہ دور میں 3500 افراد کو غائب کئے جانے کا انکشاف کیا ہے۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق بنگلا دیش کی عبوری حکومت کی جانب سے بنائے گئے انکوائری کمیشن نے اپنی عبوری رپورٹ میں کہا ہے کہ اس نے لوگوں کی مبینہ گمشدگی کے واقعات میں سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کے ملوث ہونے کا پتہ چلا ہے۔
لاپتہ افراد کے واقعات کی تحقیقات کے لیے بنائے گئے کمیشن نے اندازہ لگایا ہے کہ ایسے واقعات کی تعداد 3500 سے زیادہ ہے۔ نگراں وزیر اعظم محمد یونس کے چیف ایڈوائزر کے بیان میں کہا گیا ہے کہ کمیشن کو شواہد ملے ہیں کہ سابق وزیر اعظم شیخ کی ہدایت پر لوگوں کو غائب کیا گیا تھا۔
سابق وزیر اعظم کے معزول مشیر دفاع میجر جنرل (ر) طارق احمد صدیقی، نیشنل ٹیلی کمیونیکیشن مانیٹرنگ سینٹر کے سابق ڈائریکٹر جنرل اور میجر جنرل ضیاء الاحسن، سینئر پولیس افسران منیر الاسلام، محمد ہارون الرشید اور کئی دیگر سینئر افسران کو برطرف کر دیا گیا ہے۔ ان وارداتوں میں ملوث پائے گئے یہ تمام سابق فوجی اور پولیس اہلکار مفرور ہیں۔
بیان کے مطابق کمیشن کے چیئرمین اور سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جسٹس معین الاسلام چودھری نے عبوری وزیر اعظم محمد یونس کو بتایا کہ تحقیقات کے دوران انہیں ایک منظم طریقہ کار کا علم ہوا، جس کی وجہ سے ان واقعات کا سراغ نہیں لگایا جاسکا۔ انہوں نے کہا کہ گمشدگیوں یا ماورائے عدالت قتل میں ملوث افراد بھی متاثرین سے لاعلم تھے۔
ریٹائرڈ جسٹس معین الاسلام چودھری نے مزید کہا کہ پولیس کی ایلیٹ اینٹی کرائم ریپڈ ایکشن بٹالین اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے مل کر کام کیا۔ آر اے بی میں آرمی، نیوی، ایئر فورس اور پولیس کے لوگ شامل ہیں۔
کمیشن نے انسداد دہشت گردی ایکٹ 2009 کو منسوخ کرنے یا اس میں جامع ترامیم کے ساتھ ساتھ آر اے بی کو ختم کرنے کی بھی تجویز پیش کی۔
انسانی حقوق کے کارکن اور کمیشن کے رکن سجاد حسین نے کہا کہ انہوں نے لاپتہ افراد کی 1,676 شکایات درج کروائی ہیں اور ان میں سے اب تک 758 کی تحقیقات کی ہیں۔ ان میں سے 200 افراد یا 27 فیصد متاثرین کبھی واپس نہیں آئے اور جو واپس آئے ان میں سے زیادہ تر کو ریکارڈ میں گرفتار افراد کے طور پر دکھایا گیا ہے۔
کمیشن کے چیئرمین نے محمد یونس کو بتایا کہ وہ مارچ میں ایک اور عبوری رپورٹ پیش کریں گے اور انہیں تمام الزامات کی تحقیقات مکمل کرنے کے لیے کم از کم ایک سال درکار ہوگا۔ مبینہ طور پر لاپتہ ہونے والوں کے اہل خانہ کے بیانات ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پر نشر کیے گئے۔ ان متاثرین میں حزب اختلاف کے کارکن اور سابق فوجی افسران شامل ہیں جنہوں نے حسینہ واجد کی حکومت کی مخالفت کی تھی۔