امریکی ایوان نمائندگان کے بعد سینیٹ نے بھی ملک کو ڈیفالٹ ہونے سے بچانے کے لیے قرض کی حد کو ختم کرتے ہوئے اس سے زائد قرض حاصل کرنے کی منظوری دے دی ہے۔
امریکی کانگریس کی جانب سے دو طرفہ قانون سازی کے ذریعے قرض کی حد کی ختم کرنے کی منظوری دی ہے تاکہ امریکہ کو تاریخی دیوالیہ پن سے بچایا جاسکے۔
امریکی ذرایع ابلاغ اور بین الاقوامی خبر رساں اداروں کے مطابق ایوان نمائندگان کے بعد امریکی سینیٹ نے بھی بائیڈن حکومت کے 31 اعشاریہ 4 کھرب ڈالر قرض کی حد کی معطلی اور اس سے زیادہ قرض کےحصول کی منظوری دی۔
امریکی سینیٹ میں اس قانون سازی کے حق میں 63 اور مخالفت میں 36 ووٹ ڈالے گئے ۔ جب کہ دو روز قبل امریکی ایوان نمائندگان نے بھی 314 ارکان کی منظوری کی بعد اس بل کو پا س کردیا تھا۔ جب کہ اس کی مخالفت میں 117 ووٹ کاسٹ کیے گئے تھے۔
رپورٹس کے مطابق امریکی صدر جو بائیڈن کے دستخط کے بعد یہ بل قانون بن جائے گا تاہم، قانون بن جانے کے بعد موجودہ حکومت کے پاس مزید وفاقی قرضے لینے کی قانونی حد یکم جنوری 2025ء تک معطل رہے گی۔ اور اس تاریخ تک حکومت مقررہ حد سے زائد کے قرضے حاصل کرسکے گی۔
چند روز قبل امریکی وزارت خزانہ نے متنبہ کیا تھا کہ اگر کانگریس یہ بل متفقہ طور پر منظور کرنے میں ناکام رہی تو 5 جون کو ادائیگیوں کے لیے پیسے نہیں ہوں گے اور ملک ڈیفالٹ کرجائے گا۔
میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ اگر یہ بل منظور نہیں ہوتا تو امریکہ ادائیگیوں کے لیے رقم نہ ہونے کی وجہ سے 5 جون کو دیوالیہ ہوجاتا۔ اور اس ضمن میں وزارت خزانہ نے پہلے ہی متنبہ کردیا تھا۔
اس بل کی منظوری کے لیے ریپبلیکنز اور ڈیمو کریٹس کئی ماہ کے مخالفت اور تنقید کے بعد متفق ہوئے۔ کیوں کہ اپوزیشن جماعت ریپلیکن کا بل کی مخالفت میں کہنا تھا کہ ہم حکومتی عیاشیوں کا بوجھ عوام پر نہیں ڈال سکتے۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے بل کی منظوری پر کانگریس کوسراہتے ہوئے کہا کہ اس دو طرفہ معاہدے کی منظوری امریکی عوام و معیشت کے لیے بہت بڑی فتح ہے۔