ہمارے ملک میں خیال کیا جاتا ہے کہا امریکا سپر پاور ہے۔ وہاں ان مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا جیسے ہمیں کرنا پڑتے ہیں لیکن ایک عورت کو ایسے مسئلے کا سامنا ہے جو شائد ہمارے ملک میں کبھی ہوہی نہیں سکتا۔۔
غیر ملکی ویب سائیٹ کے مطابق امریاک کے شہر سینٹ لوئس کی رہائشی خاتون میڈلین مشیل کارتھن کو خود کو زندہ ثابت کرنے کے لیے 1 یا 2 سال نہیں بلکہ 16 سال تک قانونی جنگ لڑنی پڑی۔۔
میڈلین مشیل کارتھن کے لیے معمول کی زندگی گزارنا ناممکن ہو گیا ہے کیونکہ وہ دنیا سے رخصت ہو چکی ہے۔ درحقیقت 16 سال قبل میڈلین کو امریکی حکومت نے غلطی سے سوشل سیکیورٹی نمبر دے دیا تھا جو ایک مردہ شخص سے منسلک تھا۔ غلطی امریکی حکومت نے کی اس کا خمیازہ اس عورت کو برداشت کرنا پڑا۔۔
یہ راز اس وقت کھلا جب وہ اسکول میں پڑھتی تھیں اور یہ بات ہے 2007 کی۔۔ وہ اسکول میں پڑھتی تھی اور اس کے خاندان کے مالی حالات انتہائی خراب تھے ۔۔ امریکی حکومت نے اس کی امداد سے انکار کردیا کیونکہ سرکاری کاغذات میں وہ کئی برس پہلے مر چکی تھی۔۔
حیران کن بات یہ ہے کہ میڈلین کو اس سے متعلق تمام کاغذی کارروائی بھی دکھائی گئی۔ بات یہیں ختم نہیں ہوئی، جب میڈلین نے کہا کہ وہ ابھی زندہ ہے تو اسے کہا گیا، تم ثابت کرو کہ تم زندہ ہو۔ اس معاملے پر میڈلین کا کہنا ہے کہ کرپشن اور لاپرواہی کی وجہ سے ان کی زندگی تباہ ہو گئی ہے۔
میڈلین کے مطابق اسے اپنے گھر کے لیے قرض لینا تھا لیکن اسے قرض نہیں ملا۔ جس کی وجہ سے وہ اپنا گھر بھی نہ خرید سکی۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے زندہ ہونے کا ثبوت نہ ہونے کی وجہس سے اسے کوئی بہتر روزگار بھی نہیں مل رہا تھا
اس پورے معاملے پر سوشل سیکورٹی ایڈوائزری بورڈ کا کہنا ہے کہ حکومتی لاپرواہی کی وجہ سے میڈلین جیسے تقریباً 12 ہزار افراد کو ہر سال زندہ ہونے کے باوجود مردہ قرار دیا جاتا ہے۔