سپریم کورٹ نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیخلاف درخواستیں مسترد کرتے ہوئے ایکٹ کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے
چیف جسٹس پاکستانن جستس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 15 رکنی فل کورٹ نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت کی۔۔
جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظاہر نقوی، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس شاہد وحید نے فیصلے سے اختلاف کیا۔
فریقین کے دلائل سننے کے بعد سپریم کورٹ نے کثرت رائے سے درخواستیں مسترد کردیں ۔ جس کے بعد سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ نافذ ہوگیا ہے۔
نئے قانون کے مطابق چیف جسٹس کا ازخود نوٹس کا اختیار محدود کردیا گیا ہے۔ یہ اختیار اب اعلیٰ عدلیہ کے تین سینئر ترین ججز کے پاس ہو گا۔
چیف جسٹس اور دو سینئر ترین ججز پر مشتمل کمیٹی بینچوں کی تشکیل اور از خود نوٹس کا فیصلہ کرے گی۔۔ کمیٹی بنیادی انسانی حقوق کے معاملات کم از کم تین ججوں پر مشتمل بینچ کو بھجوائے گی۔
نئے قانون کے مطابق اب انٹرا کورٹ اپیل پر 14 روز میں سماعت ہو گی۔اس کے علاوہ اہم نوعیت کے معاملات کے مقدمات بھی 14 روز کے اندر اندر سماعت کے لیے مقرر ہوں گے۔
سپریم کورٹ نے اس ایکٹ کے تحت ماضی میں از خود نوٹس کے تحت دیے گئے فیصلوں کے خلاف اپیل کا حق نہیں دیا۔ اس کا اطلاق حال اور مستقبل کے فیصلوں پر ہوگا۔ اس عدالتی فیصلے کے بعد از خود نوٹس کے تحت نااہل قرار دیئے گئے سابق وزیراعظم نواز شریف اور جہانگیر ترین اپیل دائر نہیں کر سکیں گے۔۔