اہم ترین

کائنات کی پیدائش سے اولین دور کا بلیک ہول دریافت

خلائی تحقیق کے امریکی ادارے ناسا نے زمین سے 13.2 ارب نوری سال کے فاصلے پر ریکارڈ توڑ بلیک ہول دریافت کیا ہے۔

مائیکرو بلاگنگ ویب سائیٹ ایکس (سابق ٹوئٹر) پر اپنے ٹوئٹ میں کہا ہے کہ مسلسل پھیلتے اس بلیک ہول کی دریافت جیمز ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ اور چندرا ایکس رے آبزرویٹری سے ملنے والے ڈیٹا کی روشن میں ممکن ہوئی۔

ویب ڈیٹا سے پتہ چلتا ہے کہ بلیک ہول کی میزبان کہکشاں زمین سے 13 ارب 20 کروڑ نوری سال کے فاصلے پر ہے۔ مسلسل پھیلتے اس بلیک ہول کی کشش ثقل اتنی مضبوط ہے کہ روشنی بھی اس سے بچ نہیں سکتی اور یہ بگ بینگ (کائنات کی پیدائش کے نکقہ آغاز ) سے صرف 47 کروڑ سال بعد تشکیل پایا۔

ناسا کے مطابق ایکس رے کی توانائی اور چمک کو دیکھتے ہوئے کہا بظاہر یہ بلیک ہول اتنا بڑا ہے کہ اس میں ایک کروڑ سے 10 کروڑ سورج سماسکتے ہیں۔ اس سے اس قدر بڑے بلیک ہول کی تخلیق سمجھنے میں بھی آساانی ہوگی۔۔

ْ؎؎س دریافت پر امریکا کے بین الاقوامی ادارے ہارورڈ اینڈ اسمتھ سونین کے مرکز برائے فلکی طبعیات سے منسلک ماہر آموس بوگڈان نے کہا کہ اس قدر دور کپکشاں کی تلاش کے لیے جیمز ویب جیسی دور بیین اور بلیک ہول کی دریافت کے لئے چندرا جیسی ہی آبزرویٹری کی شدید ضرورت تھی۔

ماہر فلکیات نے مزید کہا کہ ہم نے ایک کائناتی میگنیفائنگ گلاس (کشش ثقل لینسنگ)کا بھی فائدہ اٹھایا جس نے روشنی کی مقدار کو بڑھایا ۔ اسی کی وجہ سے ہمیں اس بلیک ہول سے متعلق معلومات ملی۔

ناسا کے مطابق عام طور پر بلیک ہول اپنی میزبان کہکشاؤں میں موجود ستاروں کے ایک فیصد کا بھی دسواں حصہ یعنی صفر اعشاریہ ایک فیصد ہوتے ہیں لیکن، اس بلیک ہول کی کمیت اپنی میزبان کہکشاں کے تقریباً برابر ہی محسوس ہورہی ہے۔

پرنسٹن یونیورسٹی کے اینڈی گولڈنگ کے مطابق عام طور پر ہر بلیک ہول کی افزائش کی ایک حد ہوتیی ہے لیکن کچھ بلیک ہولز اس سے مبرا ہوتے ہیں۔

محققین کا خیال ہے کہ اتنے بڑے بلیک ہول کی تخلیق ممکنہ طور پر گیسوں کے بڑے بادلوں کے تصادم سے پہوئی ہے۔ یہ پہلی مرتبہ دیکھا گیا ہے کہ کسی بلیک ہول کی جسامت اور کمیت اس کی کہکشاں کے ہی برابر ہے۔

پاکستان