ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹل میڈیا کے اس دور میں صارفین کسی بھی پراڈکٹ یا سروسز کو خریدنے کا تعین مذکورہ کمپنی/ ادارے کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ کی مدد سے کرتے ہیں۔
اگر اس کمپنی کا انسٹاگرام، فیس بک یا ٹوئٹر تصدیق شدہ ( ویریفائیڈ ) ہے تو صارف آنکھ بند کرکے اس بھروسہ کرلیتا ہے۔
تاہم، سوشل میڈیا کنسلٹنٹ اور تجزیہ کار میٹ نویرا نے اپنی ٹوئٹ میں انکشاف کیا ہے کہ ہیکرز نے فیس بک کے مصدقہ پیجز کو اپنا نشانہ بنانا شروع کردیا ہے اور وہ ان ویریفائیڈ اکاؤنٹس پر اشتہارات کی شکل میں میلویئر( مخصوص قسم کے سافٹ ویئر جنہیں استعمال کنندہ کے علم میں لائے بنا کمپیوٹر، موبائل فون میں انسٹال کرکے ذاتی اور بینکس کی معلومات چُرا لیتے ہیں) پھیلا رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ٹِک ٹاک میں موجود بگس سے عوام کی نجی معلومات افشاء ہونےکا خدشہ
اپنی ٹوئٹ میں میٹ نے دعویٰ کیا ہے کہ ہیکنگ کی اس مذموم کارروائی میں ہیکرز نے سب سے پہلے مقبول ترین فیس بک پیجز کو نشانہ بنایا ( متاثرہ پیجز میں ایک پیج کے فالوورز کی تعداد 70 لاکھ سے زائد ہے اور یہ پیج دس سال کے زائد عرصے سے ایکٹو ہے) اور پھر ان پیجز تک رسائی حاصل کرنے کے بعد انہوں نے اس کا نام میٹا اور گوگل میں رکھ دیا۔
ہیکرز کا طریقہ واردات
ہیکنگ کے اس منفرد طریقہ واردات کے بارے میں میٹ کا کہنا ہے کہ مصدقہ پیجز ہیک کرنے کے بعد ہیکرز سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر اشتہارات کے ذریعے صارفین کو سافٹ ویئر کی شکل میں میلویئر خریدنے پر راغب کرتے ہیں۔
نویرا کا کہنا ہے کہ اس معاملے پر سوشل میڈیا جائنٹ کی خاموشی معنی خیز ہے اور اس ضمن میں متعدد سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ آخر ہیکرزویریفائیڈ پیج کو ہیک کرنے، ان کا نام تبدیل کرنے اور پھر اشتہارات چلانے میں کامیاب کیسے ہوگئے؟
اور وہ بلیو ٹک کو ختم کیے بنا میٹا ( فیس بک کی پیرینٹ کمپنی) سے ملتاجلتا نام رکھتے ہوئے کس طرح صارفین کو مشتبہ ویب سائٹ پر منتقل کرنے میں کام یاب ہوئے۔؟
گرچہ میٹ نویرا کی ٹوئٹ کے بعد فیس بک انتظامیہ نے فوری کارروائی کرتے ہوئے تمام متاثرہ اکاؤنٹس کو غیر فعال کرتے ہوئے دھوکہ دہی پر مبنی اشتہاری کمپینز کو بند کردیا ہے۔ اس حوالے سےفیس بک کا کہنا ہے کہ ہم اس معاملے کی چھان بین کر رہے ہیں اور تمام فیس بک اکاؤنٹس خصوصاً مصدقہ ( ویریفائیڈ) اکاؤنٹس کے حفاظتی معیار کو مزید بہتر بنا دیا ہے ۔