اہم ترین

ٹِک ٹاک میں موجود بگس سے عوام کی نجی معلومات افشاء ہونےکا خدشہ

ٹیکنالوجی ویب سائٹ ٹیک راڈار میں شایع ہونے والی رپورٹ کے مطابق امریکی سائبر سیکیوریٹی کمپنی”امپروا” کے محققین نے انکشاف کیا ہے کہ چینی ویڈیو شیئرنگ پلیٹ فارم ٹِک ٹاک میں موجود کچھ سیکیوریٹی خامیوں کی وجہ سے صارفین کی آن لائن سرگرمیاں دوسرے استعمال کنندگان کو ظاہر ہوسکتی ہیں۔
اس بابت ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ خامی متاثرہ فرد کی نجی معلوما ت تک رسائی حاصل کرکے اسے دھمکیاں دینے، بلیکن میلنگ اور پِشنگ(ایک طریقہ کار جس میں ہیکرز معروف کمپنیوں اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے ناموں اور لوگو سے ملتی جلتی ویب سائٹس کے ذریعے لوگوں کی نجی وحساس معلومات جیسے کہ پاس ورڈ، کریڈ ٹ و ڈیبٹ کارڈ نمبر حاصل کرلیتے ہیں) کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ بگ جسے موصول ہونے والے پیغام میں پایا گیا تھا گرچہ فکس کردیا گیا ہے۔ اس وائرس کےحملہ کرنے کے طریقہ کار کے حوالے سے محققین نے بتایا کہ ہیکرز پوسٹ میسج اے پی آئی ( ایپلی کیشن پروگرامنگ انٹر فیس) کے ذریعے ویب بیسڈ ایپلی کیشن کے ذریعے نقصان دہ پیغام بھیجتے ہیں جو سیکیوریٹی اقدامات کو بائی پاس کرتے ہوئے صارف کی نجی معلومات چُرا لیتے ہیں۔ اور یہ معلومات وائرس پر مشتمل پیغام پھیجنے والے ہیکرز کے پاس چلی جاتی ہے اور استعمال کنندہ اس سے لاعلم رہتا ہے۔
صارف کے اکاؤنٹ کی تفصیلات
سائبر سیکیوریٹی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹِک ٹاک کی خامی کا فائد ہ اٹھاتے ہوئے ہیکرز قابل قدر ڈیٹا تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔ اس ڈیٹا میں استعمال کنندہ کے لیپ ٹاپ، ٹیبلیٹ، موبائل یا دیگر ڈیوائس کے آپریٹنگ سسٹم، اس پر دیکھی جانے والی ویڈیوز اور ان کی نوعیت، ہر ویڈیو کا واچ ٹائم، صارف کے اکاؤنٹ کا ڈیٹا بشمول ای میل ایڈریس، فون نمبر، محٖفوظ کیے گئے پاس ورڈز اور سرچ انجن پر تلاش کیے گئے مواد کی تفصیلات شمل ہیں۔
محققین نے اپنی رپورٹ میں ٹک ٹاک کو ایک متنازعہ ایپلی کیشن قرار دیتے ہوئے کہا ہے چینی کمپنی بائٹ ڈینس کی جانب سے ڈیولپ کی گئی اس ایپ کو دنیا بھر میں ڈیڑھ ارب سے زیادہ لوگ استعمال کر رہے ہیں، جب کہ صرف امریکہ میں ہی اس کے استعمال کنندگان کی تعداد 150 ملین سے زائد ہے۔ اور اس سیکیوریٹی بگ نے کروڑوں صارفین کی ذاتی معلومات کے ظاہر ہونے کے خدشے کو بڑھا دیا ہے۔
یاد رہے کہ حال ہی میں امریکی حکومت نے ٹک ٹاک کو امریکی صارفین کا ڈیٹا امریکی حدود میں میں اسٹور کرنے پر مجبور کیا اور بعد ازاں تمام سرکاری ملازمین پر اس چینی ایپ کے استعمال پر پابندی لگا دی گئی ہے۔

پاکستان