وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کا کہنا ہے کہ حکومت رئیل اسٹیٹ، ریٹیل، ریٹیل ڈسٹری بیوٹرز اور زراعت سمیت بعض شعبوں پر ٹیکس لگانے کے لیے پرعزم ہے۔
فرانسیسی نیوز ایجنسی اے ایف پی کو دیئے گئے انٹرویو میں کہا کہ نجکاری سے متعلق مقامی یا غیر ملکی سرمایہ کار اپنی رقم لگانے سے پہلے بنیادی چیزوں کو ضرور دیکھتا ہے۔ اس لیے بالآخر کابینہ نے ہی ٹائم لائنز میں توسیع کی منظوری دی ہے تاکہ مستعدی سے کام کیاجاسکے۔
محمد اورنگزیب نے کہا کہ جب موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالا تو پاکستان کو ادائیگیوں کے حوالے سے مشکلات کا سامنا تھا ۔ ہم نے میکرو اکنامک استحکام پر پیش رفت کے بعد اس کے تدارک کے لیے اقدامات کیے۔ جس کی وجہ سے ملک کے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں کمی اور پاکستانی کرنسی کی قدر میں استحکام استحکام آیا ہے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ اس میکرو اکنامک استحکام اور زر مبادلہ کے ذخائر میں اضافے کی وجہ سے ہم نے مئی اور جون میں بین الاقوامی سرمایہ کاروں کو 2 ارب ڈالر سے زیادہ کی ادائیگی کی۔
آئی ایم ایف سے 7 ارب ڈالر قرض کے معاہدے کی بنیاد شرائط میں اداروں کی نجکاری، ٹیکسوں وصولی میں اضافہ اور توانائی کے شعبے میں مالیاتی بہتری شامل ہیں۔ اس حوالے سے انہوں نے کہا کہ ان تینوں معاملات میں چوری اور کرپشن کا عنصر ہے اور ہمیں ان سب سے نمتںا ہے۔
انہوں نے ٹیکس نیٹ میں وسعت سے متعلق عدم سنجیدگی کے الزامات کی ترید کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ مالی سال ٹیکس وصولی میں 29 فیصد اضافہ ہوا تھا۔
مالی سال 23-2022 کے دوران 24 کروڑ افراد پر مشتمل ملک میں صرف 520 لاکھ گوشوارے جمع کرانے پر ان کا کہنا تھا کہ تنخواہ دار طبقے اور مینوفیکچرنگ انڈسٹری سے ٹیکس وصولی کا حجم اپنی انتہائی حد کو پہنچ چکا ہے ۔ ان سے مزید وصولی نہیں بڑھ سکتی۔ ہم چاہتے ہیں جو لوگ ٹیکس ادائیگی نہیں کرتے وہ اس عمل کا آغاز کریں۔ ہم رئیل اسٹیٹ، ریٹیل، ریٹیل ڈسٹری بیوٹرز اور زراعت سمیت بعض شعبوں پر ٹیکس لگانے کے لیے پرعزم ہیں۔