امریکا کے خلائی تحقیق کےادارے ناسا نے اپنے ” مون مشن” کے لیے دنیا کے ارب پتی افراد میں سے ایک جیف بیزوز کی کمپنی بلیو اویجن کے ساتھ شراکت داری کرلی ہے۔
اس معاہدے کی رُو سے بلیو اوریجن مون مشن کے لیے خلائی جہاز کی تیاری کا کام سرانجام دے گی۔ ناسا کے اس فیصلے سے مذکورہ کمپنی کو اپنے آرٹیمس پروگرام کے تحت دوسری بار چاند کے سفر کا موقع مل سکے گا۔
ناسا کی جانب سے جاری بیان کے مطابق بلیو اوریجن کے ساتھ اس ضم میں 3 ارب 40 کروڑ ڈالر کا معاہدہ کیا گیا ہے۔ بلیو اوریجن اپنا 52 فٹ ( 16 میٹر) طویل بلیو مون لینڈر تعمیر کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ ناسا کے ساتھ اس معاہدے سے جیف بیزوز کی کمپنی کو بھی بوسٹ ملے گا۔
ناسا سربراہ کی جانب سے اس معاہدے کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ایمزون کے مالک جیف بیزوز کی خلائی کمپنی بلیو اوریجن ناسا کے خلابازوں کو چاندکی سطح پر بھیجنے کے لیے خلائی جہاز کی تیاری کا معاہدہ حاصل کرلیا ہے ۔
ناسا کے اس فیصلے سے ایجنسی کو اپنے آرٹیمس پروگرام کے تحت چاند پر دوسری سواری کا موقع ملے گا، جب اس نے ایلون مسک کے اسپیس ایکس کو 2021 میں 3 ارب ڈالر سے نوازا تھا تاکہ وہ 1972 ء کے حتمی اپالو مشن کے بعد پہلی بار چاند پر خلابازوں کو اتارے۔
اسپیس ایکس کے اسٹار شپ نظام کو استعمال کرتے ہوئے ان ابتدائی مشنز کی منظوری اس دہائی کے آخر میں طے کیے گئے تھے۔
ناسا کے ایکسپلوریشن چیف جِم فری نے اس معاہدے کی ویلیو تقریباً 3 ارب 40 کروڑ ڈالر ہے ۔ جیب بیزوز نے ناسا کے بیان کے بعد ایک ٹوئٹ میں کہا کہ ” چاند پر ناسا کے خلابازوں کے ساتھ لینڈ کرنا بہت اعزاز کی بات ہے۔”
بلیو اوریجن اپنا 52 فٹ (16 میٹر) لمبا بلیو مون لینڈر لاک ہیڈ مارٹن، بوئنگ، خلائی جہاز سافٹ ویئر فرم ڈریپر، اور روبوٹکس فرم ایسٹر وبوٹک کے ساتھ شراکت میں بنانے کا ارادہ رکھتی ہے۔
اسپیس ایکس کا اسٹار شپ لینڈر ناسا کے آرٹیمس پروگرام کے تحت پہلے دو خلانوردوں کی چاند پر لینڈنگ کرنے کے لیے تیار ہے، یاد رہے کہ ناسا ہر مشن کے لیے خلابازوں کی ایک جوڑی چاند کی سطح پر بھیجتا ہے۔ بلیو مون لینڈنگ، جس کی منصوبہ بندی 2029ء کے لیے کی گئی ہے، کی بھی دو خلابازوں کو بھی چاند کی سطح پر لے جانے کی توقع ہے۔
ناسا کےمنتظم بل نیلسن کا اس حوالے سے مزید کہنا تھا کہ ہماری شراکت داری انسانی خلائی پرواز کے اس سنہری دور میں اضافہ کرے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایجنسی کے آرٹیمس مشن کے لیے چاند کے دوسرے لینڈر کا ہونا تجارتی مسابقت کو فروغ دیتا ہے، جو حالیہ برسوں میں ایک ٹرینڈ کا تسلسل ہے جس سے ناسا کے اخراجات میں کمی آئی ہے۔