صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے سپریم کورٹ ریویو اینڈ ججمنٹس آرڈر ایکٹ 2023ء پر دستخط کردیے جس کے بعد یہ ایکٹ بن گیا ہے جس کا نفاذ جمعہ سے ہوگا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق سپریم کورٹ اٹارنی جنرل پاکستان نے ریویو آف ججمنٹ ایکٹ 2023ء کی کاپی اور نوٹی فکیشن سپریم کورٹ جمع کروا دیا۔
آرٹیکل 184 کے تحت مقدمات کی نظرثانی درخواستوں میں سپریم کورٹ اپیل کی طرز پرسماعت کرے گی۔ سپریم کورٹ کے فیصلوں پر نظرثانی اور احکامات ایکٹ 2023ء ماضی میں 184/3 کے فیصلوں پر بھی ہوگا۔
ایکٹ کا دائر کارہ اس قانون کے بننے سے پہلے کے فیصلوں پر بھی ہوگا، ایکٹ کا دائر کار سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے فیصلے اور رولز پر بھی ہوگا۔
ایکٹ کے تحت نظرثانی درخواست کی سماعت لارجر بینچ کرے گا، لارجر بینچ میں ججز کی تعداد مرکزی کیس کا فیصلہ سنانے والے ججز سے زیادہ ہوگی۔ فیصلہ دینے والے جج نظر ثانی بنچ کا حصہ نہیں ہوں گے۔
سپریم کورٹ (ریویو آف جج منٹس اینڈ آرڈرز) ایکٹ 2023ء بل، 14 اپریل کو قومی اسمبلی اور 5 مئی کو سینیٹ سے منظور ہوا۔ سپریم کورٹ فیصلوں پر نظرثانی اور احکامات ایکٹ 2023ء رکن اسمبلی شزا فاطمہ نے بطور نجی بل پیش کیا تھا ۔
اس نئے ایکٹ کے تحت سپریم کورٹ ازخود نوٹس کیس فیصلوں پر بھی اپیل دائر کی جا سکے گی، نظر ثانی اپیل میں فریق کو اپنی مرضی کا وکیل کرنے کا حق حاصل ہوگا۔
ایکٹ نافذ ہونے کے بعد نواز شریف اور جہانگیر ترین بھی ایکٹ سے فائدہ اٹھاسکیں گے۔ اس نئے قانون کے تحت نواز شریف اور جہانگیر ترین 60 دن کے اندر اپنی سزا کے خلاف اپیل دائر کرسکیں گے۔ ایکٹ کے تحت 184(3) کے فیصلے کے خلاف 60 روز کے اندر اپیل دائر کی جاسکے گی۔
دریں اثنا قومی اسمبلی سیکریٹریٹ نے سپریم کورٹ فیصلوں پر نظرثانی و احکامات ایکٹ 2023ء کا گزیٹڈ نوٹی فکیشن جاری کر دیا۔ سپریم کورٹ نظرثانی اور احکامات ایکٹ کا گزیٹڈ نوٹی فکیشن سیکریٹری قومی اسمبلی محمد قاسم سمد خان نے جاری کیا۔
دوسری جانب وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑکا اس قانون کی بابت کہنا ہے کہ سپریم کورٹ (ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز) ایکٹ 2023 کے نئے قانون کا نواز شریف کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا،کیوں کہ اس سے نواز شریف کے کیس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ تاہم، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا فائدہ انہیں ہوگا لیکن اس پر سپریم کورٹ نے اسٹے آرڈر جاری کررکھا ہے۔