اہم ترین

بحرالکاہل میں گرنے والا شہاب ثاقب خلائی مخلوق سے تعلق رکھتا ہے، ماہرین

ہارورڈ یونیورسٹی کے ماہر طبیعیات کا کہنا ہے کہ زمین پر گرنے والے شہابِ ثاقب کے ٹکڑے بیرونی خلا میں استعمال ہونے والے ‘ٹیکنالوجیکل گیجٹ’ کے حصے ہوسکتے ہیں۔

تقریباً ایک دہائی قبل، زمین کے قریبی ستاروں کے مقابلے میں تقریباً 95 فیصد زیادہ رفتار سے سفر کرنے والا ایک شہابِ ثاقب کا ٹکرا بحر الکاہل میں گر گیا تھا۔ ہارورڈ یونیورسٹی کے فلکیاتی طبیعیات کے ماہر ایوی لوئب کا کہنا ہے کہ اس بات کا امکان موجود ہے کہ ممکن ہے جسے ہم ایک خلائی چٹان سمجھ رہے ہیں وہ درحقیقت کچھ اور ہو۔

ایوی لوئب حال ہی میں بحر الکاہل کی سیر سے واپس آئے ہیں، ان کا مقصد اس شہاب ثاقب کے ٹکڑوں کو اکھٹا کرنا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ٹکڑے کسی دوسرے نظام شمسی کے “ٹیکنالوجیکل گیجٹ” کی باقیات ہو سکتے ہیں۔

50 چھوٹے دائرے، یا پگھلی ہوئی بوندوں کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ اسٹیل اور ٹائٹینیم کے مرکب سے بنے ہیں، جو دیگر شہاب ثاقب میں موجود لوہے سے زیادہ پائیدار ہے۔ شہاب ثاقب کی رفتار کی وجہ سے ایوی لوئب اور دوسرے محققین کو یقین ہے کہ اس کا تعلق ہمارے نظام شمسی سے نہیں ہے۔

پاپوا نیو گنی کے ساحل سے بہت دور سمندر کے درمیان، جہاں انہوں نے 2014 میں گر کر تباہ ہونے والے شہاب ثاقب کے ٹکڑے آئی ایم ون کو دریافت کیا تھا، اسی مقام پر ایوی لوئب اور ان کی ٹیم کو کچھ پگھلی ہوئی بوندیں ملی تھیں۔ 2022 میں محکمہ دفاع نے ناسا کو مطلع کیا کہ شہاب ثاقب کی رفتار انٹرسٹیلر (بین النجوم) رفتار کی نشاندہی کرتی ہے۔

مہم کے تقریباً ایک ہفتے بعد، محققین کو “دھاتی ماربلز” ملے، جو راکھ کے اندر دفن تھے۔ یہ سائز میں ایک ملی میٹر سے بھی کم ہیں۔

ایوی لوئب نے مزید کہا کہ، “وہ شہاب ثاقب کے راستے پر مرکوز تھے اور وہ ساخت کے لحاظ سے بھی نظام شمسی کی اشیاء سے بالکل مختلف ہو سکتے ہیں۔ ان میں موجود آئسوٹوپس کی قسم، جیسے کہ تابکار آئسوٹوپس، کو الیکٹران خوردبین کے ساتھ ساتھ نمونوں کی لی گئی تصاویر کا استعمال کرتے ہوئے جانچا جائے گا۔”

ان نمونوں کی ہارورڈ میں مزید جانچ کی جائے گی تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ وہ کس چیز سے بنے ہیں۔

پاکستان