ہارورڈ یونیورسٹی، ناسا کی جیٹ پروپلشن لیب اور ایڈنبرا یونیورسٹی کے محققین نے مریخ کے مختلف حصوں کو قابل رہائش بنانے کے لیے ایک نئی حکمت عملی تجویز کی ہے۔
وہ پورے سیارے کو ٹیرافارم کرنے کی کوشش کرنے کے بجائے سلیکا ایرجیل نامی مادے کا استعمال کرتے ہوئے رہائش کے قابل زونز بنانے کا مشورہ دیتے ہیں۔
سلیکا ایرجیل کا استعمال کرہ ارض کے ماحول کے گرین ہاؤس اثر کی نقل کرے گا، جو نقصان دہ بالائے بنفشی شعاعوں کو روکنے کے ساتھ ساتھ فوٹو سنتھیسز کے لیے ضروری مقدار میں روشنی بھی فراہم کرے گا اور پانی کی مائع شکل کو سہارا دینے کے لیے ضروری حد تک درجہ حرارت کو بڑھا دے گا۔
سائنسدانوں نے دریافت کیا کہ یہ اثرات اندرونی حرارت کے ذرائع کی ضرورت کے بغیر سلیکا ایرجیل سے بنے 2 سے 3 سینٹی میٹر موٹی رکاوٹ کا استعمال کرکے پیدا کیے جاسکتے ہیں۔
عالمی ماحولیاتی تبدیلی کے تصورات کے مقابلے میں اس زونز پر مبنی حکمت عملی کو زیادہ قابل عمل تصور کیا جا رہا ہے۔
گرین ہاؤس کا ایک ٹھوس اثر جو قطبی خطوں میں سیارے آئس کیپس کے نیچے تشکیل پاتا ہے، اور جو پانی کی برف اور منجمد کاربن ڈائی آکسائڈ کے مرکب سے بنا ہوتا ہے، محققین کے لیے اس تصور میں دلچسپی کی ایک اہم وجہ ثابت ہوا۔
مریخ کی قطبی آئس کیپس منجمد کاربن ڈائی آکسائڈ اور پانی کی برف سے بنی ہیں۔ منجمد کاربن ڈائی آکسائڈ اپنی گیسی شکل کی طرح روشنی کو گزرنے کی اجازت دیتے ہوئے گرمی کو باہر نکلنے سے روک لیتی ہے۔ موسم گرما میں برف کے نیچے گرمی کے زون اس ٹھوس شکل کے گرین ہاؤس اثر سے تشکیل پاتے ہیں۔ اس تصویر میں انہیں سیاہ دھبوں کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔
سلیکا ایرجیل اپنی 97 فیصد شفافیت کی بدولت انفراریڈ روشنی کو روکنے اور حرارت کی ترسیل کو کم کرتے ہوئے روشنی کو منتقل کرتا ہے۔
اس مواد کو مریخ پر خود ساختہ حیاتیات یا رہائش کے ڈھانچے کی تعمیر کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
مزید تحقیق کرنے سے پہلے محققین زمین پر مریخ جیسی آب و ہوا والا ایک مصنوعی زون بنا کر اس مواد کی تفصیلی جانچ کرنا چاہتے ہیں۔
یہ تجویز سیاروں کے تحفظ اور مریخ پر زندگی کے ممکنہ وجود کے بارے میں اہم سوالات اٹھا رہی ہے۔
ہارورڈ جان اے پالسن اسکول آف انجینئرنگ اینڈ اپلائیڈ سائنسز میں ماحولیاتی سائنس اور انجینئرنگ کے اسسٹنٹ پروفیسر رابن ورڈز ورتھ نے اس حوالے سے سب سے اہم سوال اٹھایا ہے، “اگر آپ مریخ کی سطح پر زندگی کو فعال کرنے جا رہے ہیں، تو کیا آپ کو یقین ہے کہ وہاں پہلے سے زندگی نہیں ہے؟ اگر موجود ہے تو ہم اس پر کیسے چلے جائیں؟ یہ سوالات اس وقت ناگزیر ہو جاتے ہیں جب ہم مریخ پر انسانوں کو لے جانے کا فیصلہ کرتے ہیں۔”