اہم ترین

اسٹیم سیل کی مدد سے لیباریٹری میں بچے کا ماڈل تیار

ویزمین انسٹی ٹیوٹ کے سائنسدانوں نے ایک ایسا ماڈل تیار کیا ہے جو ماں کے پیٹ میں موجود 14 دن کے بچے سے مشابہت رکھتا ہے۔

سائنس جریدے ‘ نیچر ‘ میں شایع ہونے والی تحقیق کے مطا بق یہ ماڈل اسپرم، ایگز، یا ماں کے رحم جیسے معمول کے اجزاء کو استعمال کیے بغیر تیار کیا گیا ہے۔ اس کے بجائے انہوں نے خصوصی خلیات کی طاقت کا استعمال کیا جسے اسٹیم سیل کہتے ہیں۔ یہ خلیے بچے کے جسم کے مختلف اعضاء میں تبدیل ہو سکتے ہیں۔

سائنسدانوں نے ان اسٹیم سیلز کو مختلف قسم کے خلیوں میں تبدیل کر دیا جس طرح ایک بچہ اپنی ماں کے اندر بڑھنا شروع کر رہا ہوتا ہے۔ پھر ان خلیوں کو ایک خاص طریقے سے ملا کر ان کے ایک چھوٹے سے گروپ نے قدرتی طور پر آپس میں جوڑ کر ایک ایسی چیز بنائی جو رحم موجود 14 دن کی عمر کے بچے کی طرح دکھائی دیتی تھی۔ یہ ماڈل اس لیے بھی اہم ہے کہ بہت سے ممالک ایسے ہیں جہاں 14 دنوں سے زیادہ عرصے سے بڑھنے والے حقیقی بچوں پر تحقیق کرنا ممنوع ہے۔

سائنسدانوں کا دعوٰی ہے کہ ان ماڈلز میں سکھانے کے لیے بہت کچھ ہے۔ اس دریافت کے بعد یہ تحقیق ممکن ہے کہ رحم میں پرورش پانے والے بچے کے اعضاء اور جسم کے دیگر حصے کیسے بننا شروع ہوتے ہیں۔

 مزید یہ تحقیق بھی ممکن ہے کہ کیوں کچھ نوزائیدہ بچوں کو مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جیسے کہ جب وہ اپنے والدین سے وراثت میں ملنے والی غیر معمولی چیزوں کے نتیجے میں بیمار ہو جاتے ہیں۔ مزید برآں، یہ ڈاکٹروں کو ان جوڑوں کی مدد کرنے کے قابل بنائے گا جو بچے کی خواہش رکھتے ہیں لیکن حاملہ ہونے میں مشکلات کا شکار ہیں۔ یہ اس بات کا تعین کرنے میں بھی مدد کر سکتا ہے کہ آیا دوائیں حاملہ ماؤں اور ان کے پیدا ہونے والے بچوں کے لیے محفوظ ہیں یا نہیں۔

تاہم، یہ ماڈل زیادہ تر ناکام رہتے ہیں۔ تجربات کے تقریباً صرف 1 فیصد نتائج میں وہ صحیح طریقے سے اکٹھے ہو پاتے ہیں۔ سائنسدان اس ماڈل کو کامیاب کرنے کا بہتر طریقہ دریافت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بعض حلقے یہ سوال بھی کر رہے ہیں کہ کیا ان نوزائیدہ ماڈلز کو تخلیق کرتے رہنا مناسب ہے اور کیا انہیں 14 دن سے آگے بڑھنے دیا جانا چاہیے۔

پاکستان