اہم ترین

سہولیات نہ ملنے کے باوجود پاکستانی گیمرز کی عالمی سطح پر دھوم

پاکستان ایک ایسا ملک جہاں صرف کرکٹ کو دیوانہ وار توجہ ملتی ہے، بجلی کی بندش ست زندگی اجیرن ہے، سفر کے لیے ہریشانیاں ہیں اور حکومتی سطح پر تعاون بھی نہ ہونے کے برابر ہے ۔۔ اس کے باوجود ملک کے ای اسپورٹس ہیرو گیمنگ کی دنیا کو طوفان کی طرح اپنی لپیٹ میں لے رہے ہیں۔۔

28 سالہ ارسلان صدیقی عرف “ایش” نے دبئی میں او یو جی فائنلز 2018 میں جنوبی کوریا کے لیجنڈ کھلاڑی بائے نی جائے من کو شکست دیکر شہرت حاصل کی تھی۔ اور جاپانی فائٹنگ گیم ٹیکن کے چیمپئن کے طور پر اپنی صلاحیتوں کو منوایا ۔

اگلے سال ارسلان صدیقی نے لاس ویگاس اور ٹوکیو میں دنیا کے بہترین ٹیکن کھلاڑیوں شکست دے کر ایوولوشن چیمپئن شپ سیریز کے دو ایڈیشن جیتے۔

دیگر جنوبی ایشیائی قوموں کی طرح پاکستان میں بھی کرکٹ کا جنون ہے لیکن “ایش” کی کامیابی نے بہت سے گیمرز کو پیشہ ورانہ طور پر ویڈیو گیمز کھیلنے کی ترغیب دی ہے۔

اپنے ایک انٹرویو مٰں ارسلان صدیقی نے کہا کہ پاکستان میں گیمرز کو پہلے سے ہی موجود تھے ۔ لیکن جب میں جیتا تو بہت سے لوگوں نے محسوس کیا کہ اس میں بہت پیسہ ہے، اور اس کا بھی مستقبل ہے۔

پاکستان بھر کے شہروں میں 10 سال سے کم عمر کے لڑکے تنگ گلیوں اور سہولیات سے عاری کمرشل مالز میں قائم گیمنگ آرکیڈز میں آتے ہیں اور گھنتٹں گیمنگ میں اپنا وقت صرف کرتے ہیں۔ لیکن درحقیقت یہی پریجوم آرکیڈز ہی ٹیکن کے بین الاقوامی کھلاڑی پیدا کررہے ہیں۔

گزشتہ چار اول کے دوران ارسلان صدیقی ٹیکن کے صف اول کے کھلاڑی بن گئے ہیں ، جنوری میں وہ جاپان میں ہونے والے بین الاقوامی مقابلے میں دوبارہ ٹائٹل جیتنے کے لیے پرعزم ہیں۔۔

ارسلان صدیقی کے بعد دیگر پاکستانی ٹیکن کھلاڑیوں نے بھی بین الاقوامی سطح پر اپنی شناخت بنائی ہے۔ عاطف بٹ نے اپنے پہلے غیر ملکی دورے میں ٹوکیو ٹیککن ماسٹرز کا 2019 ایڈیشن اور اس سال کی IESF ورلڈ ای ا سپورٹس چیمپئن شپ جیتی۔

عاطف بٹ نے ارسلان صدیقی اور عمران خان کے ساتھ جنوبی کوریا اور جاپان کو ہرا کر 5 لاکھ ڈالرز کی انعامی رقم جیتی تھی۔۔

عمران خان کہتے ہیں کہ جب ہم نے بین الاقوامی کھلاڑیوں کو آن لائن دیکھا تو ہمیں احساس ہوا کہ ہم بھی ان کی طرح کھیلتے ہیں، اور یہ کہ ہم بیرون ملک بھی مقابلہ کر سکتے ہیں، پاکستانی کھلاڑیوں نے اب بین الاقوامی کارپوریٹ اسپانسرشپ حاصل کرنے اور سوشل میڈیا پر توجہ حاصل کرنے کا طریقہ بھی سیکھ لیا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ٹیکن کے کچھ پاکستانی کھلاڑیوں نے بین الاقوامی ٹیموں کے ساتھ معاہدے کرلئے ہیں جو ان کے دوروں کے اخراجات برداشت کرتی اور انہین تنخواہین ادا کرتی ہیں۔

گزشتہ چنس برسوں کے دوران کارپوریٹ اسپانسرشپ اور حکومتی سطح پر فنڈنگ نے ای اسپورٹس کو اربوں ڈالر کی عالمی صنعت بنا دیا ہے۔ ڈوٹا 2 (DOTA 2 )اور کآنٹر اسٹرائیک (Counter-Strike) جیسے گیمز پر مشتمل مقابلے آن لائن لاکھوں ناظرین کو اپنی طرف متوجہ کر سکتے ہیں —

ای اسپورٹس گروپ گیمر پاکستان امریکا میں جگہ بنانے والا پہلا پاکستانی ادارہ بن چکا ہے

ارسلان صدیقی کہتے ہیں کہ پاکستان میں ای گیمز کو کیرئیر کے طور پر چننے کے حوالے سے سوچ بدل رہی ہے۔ والدین ہہم سے اپنے بچوں کو گیمرز بنانے سے متعلق سوالات پوچھتے ہیں لیکن سچ یہ ہے کہ اب بھی اکثریت کرکٹ کو ہی پہلی ترجیح دے گی۔۔ کیونکہ اب بھی حکومتی تعاون کی کمی اور اپنے اخراجات خود پورے کرنے جیسی رکاوٹیں گیمنگ کے شوقین افراد کو بطور کیریئر اسے اپنانے سے باز رکھتی ہیں۔۔

پاکستان