اہم ترین

بچوں میں آٹزم کی تشخیص کرنے والا مصنوعی ذہانت کا نظام تیار

امریکی ماہرین نے بچوں میں انتہائی چھوٹی عمر میں درستگی کے ساتھ آٹزم کی تشخیص کرنے والا مصنوعی ذہانت کا پروگرام تیار کرلیا ہے۔

شکاگو میں ریڈیالوجیکل سوسائٹی آف نارتھ امریکا کے سالانہ اجلاس میں پیش کی جانے والی تحقیق کے مطابق مصنوعی ذہانت کا ایک نیا نظام بچوں میں آٹزم کی بہت پہلے تشخیص کر سکتا ہے۔

لوئس ول یونیورسٹی سے منسلک مختلف شعبوں کے ماہرین پر مشتمل ٹیم نے انسانی دماغ میں سفید مادے کی نالیوں کے ساتھ پانی کے موجودگی کا پتہ چلانے والی نئی تیکنیک ڈی ٹی – ایم آر آئی (DT-MRI) کے تجزیئے اور درجہ بندی کے لیے 3 مراحل پر مشتمل مصنوعی ذۃانت کا نظام تیار کیا ہے۔

محققین نے کہا کہ دماغ کے خصوصی ایم آر آئی کا تجزیہ کرنے والا نیا نظام 24 سے 48 ماہ کی درمیانی عمر کے بچوں میں 98.5 فیصد درستگی کی شرح سے آٹزم کی درست تشخیص کرتا ہے۔

تحقیق کے شریک مصنف اور لوئس ول یونیورسٹی میں بائیو انجینیئرنگ ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ ڈاکٹر ایمن ال باز کا کہنا ہے کہ آٹزم کی تشخیص کے لیے رائج عمومی طریقہ کار موضوعاتی ہیں۔۔ جس کی وجہ سے آٹزم کی ابتدائی مرحلے میں ہی تشخیص کے لیے ایک نئی معروضی ٹیکنالوجی تیار کرنے کی فوری ضرورت ہے۔

اس سلسلے میں تیار کئے گئے مصنوعی ذہانت کے نظام میں ڈی ٹی – ایم آر آئی (DT-MRI) اسکین سے دماغ کے ٹشو کی تصاویر کو الگ کرکے دماغی اعصاب کےدرمیان رابطے کے مقامات کی نشاندہی شامل ہے۔

مشین انداز میں ترتیب دیا گیا الگورتھم آٹزم میں مبتلا بچوں کے دماغ کا موازنہ اسی عمر کے صحت مند بچوں سے کرتا ہے۔

تحقیق کے ایک اور شریک مصنف اور لوئس ول یونیورسٹی میں نارٹن چلڈرن آٹزم سینٹر کے ڈائریکٹر ڈاکٹر گریگوری این بارنس کہتے ہیں کہ آٹزم بنیادی طور پر دماغ کے اندر غلط اعصابی رابطوں کی بیماری ہے، ڈی ٹی – ایم آر آئی (DT-MRI) ان غیر معمولی رابطوں کی نشاندہی کرتا ہے جو آٹزم کے شکار بچوں میں عمومی طور پر موجود علامات کی وجہ بنتے ہیں۔

محققین نے آٹزم برین امیجنگ ڈیٹا ایکسچینج-II سے 24 سے 48 ماہ کی عمر کے 226 بچوں کے DT-MRI دماغی اسکینوں پر اپنا وضع کردہ نظام لاگو کیا۔ ڈیٹا سیٹ میں آٹزم سے متاثرہ 126 بچوں اور 100 عام طور پر نشوونما پانے والے بچوں کے اسکین شامل تھے۔

تحقیق کے دوران ماہرین نے محسوس کیا کہ تین سال کی عمر سے پہلے مناسب علاج سے آٹزم کا شکار بچوں میں زیادہ اچھے نتائج حاصل ہوسکتے ہیں اور اس سے بچے کی دماغی صلاحیت بھی بہتر کی جاسکتی ہے۔

امریکا میں صحت کے امور کے ذمہ دار ادارے سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن (سی ڈی سی) کے مطابق تقریباً آٹزم کا شکار 30 فیصد بچوں میں 8 سال کی عمر تک اس مرض کی تشخیص ہی نہیں کی جاسکی۔

پاکستان