اہم ترین

پرویز مشرف کی سزائے موت اور لاش چوک پر لٹکانے کی سزا برقرار

سپریم کورٹ نے سابق آرمی چیف اور صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کی سزا کے خلاف اپیل خارج کرتے ہوئے خصوصی عدالت کا سزائے موت کا فیصلہ برقرار رکھا ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے چار رکنی لارجر بینچ نے متفقہ طور پر سابق فوجی صدر کی اپیل کو خارج کرتے ہوئے لاہور ہائیکورٹ کا خصوصی عدالت کی تشکیل غیرآئینی قرار دینے کا فیصلہ بھی کالعدم قرار دیا ہے۔

17 دسمبر 2019 کو پشاور ہائیکورٹ کے اُس وقت کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ کی سربراہی میں خصوصی عدالت کے تین رکنی بینچ نے پرویز مشرف کو آئین شکنی اور سنگین غداری کا مجرم قرار دیتے ہوئے انھیں سزائے موت دینے کا فیصلہ سُنایا تھا۔

فیصلے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ استغاثہ کے شواہد کے مطابق ملزم مثالی سزا کا مستحق ہے اور اسے ہر الزام میں الگ الگ سزائے موت سنائی جاتی ہے۔

جسٹس سیٹھ وقار نے اپنے فیصلے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو حکم دیا تھا کہ وہ پرویز مشرف کو گرفتار کرنے اور سزا پر عملدرآمد کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں اور اگر وہ مردہ حالت میں ملیں تو ان کی لاش کو اسلام آباد کے ڈی چوک پر تین دن تک لٹکائی جائے۔

13 جنوری 2020 کو جسٹس مظاہر علی نقوی (موجودہ سپریم کورٹ جج) کی سربراہی میں لاہور ہائیکورٹ کے تین رکنی فل بینچ نے سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس میں سزائے موت سنانے والی خصوصی عدالت کی ناصرف تشکیل کو غیرقانونی قرار دیا بلکہ اس میں ہونے والی تمام تر کارروائی کو بھی کالعدم قرار دیا تھا۔

لاہور ہائیکورٹ کے اس فیصلے کے خلاف پاکستان بار کونسل نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔ اس درخواست میں پاکستان بار کونسل کی جانب سے موقف اختیار کیا گیا تھا کہ آئین شکنی کے مقدمے کی سماعت کے لیے خصوصی عدالتی تشکیل سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے حکم پر کی گئی اور لاہور ہائی کورٹ جو کہ سپریم کورٹ کے ماتحت ہے کیسے اس فیصلے کی حکم عدولی کر سکتا ہے۔

پرویز مشرف گزشتہ برس فروری میں انتقال کرگئے تھے۔ انہین کراچی میں سپرد خاک پورے فوجی اعزاز کے ساتھ کیا گیا تھا

پاکستان