اہم ترین

سپریم کورٹ کا حکومت کو عدالتی معاملات میں مداخلت ختم کرنے کا حکم

سپریم کورٹ نے حکومت کو عدالتی معاملات میں مداخلت ختم کرنے کا حکم دے دیا۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضٰ فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس منصور علی شاہ، یحییٰ خان آفریدی، جمال خان مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس نعیم اختر افغان پر مشتمل سپریم کورٹ کے 7 رکنی بینچ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججوں کی جانب سے عدلیہ میں انٹیلیجنس اداروں کی مداخلت سے متعلق خط پر از خود نوٹس کی سماعت کی۔

سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے تنقید کرنے والوں کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے فل کورٹ میٹنگ کی، اس سے پہلے چار سال فل کورٹ میٹنگ نہ ہوئی، اس وقت وکلا کہاں تھے؟ مداخلت کبھی برداشت نہیں کرتے، کسی کا کوئی اور ایجنڈا ہے تو چیف جسٹس یا سپریم کورٹ بار کا صدر بن جائے، وزیر اعظم، وزیر قانون اور اٹارنی جنرل سے چھپ کر یا گھر میں بیٹھ کر نہیں ملاقات کی، وزیر اعظم ملک کی انتظامیہ کے سربراہ ہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے سوال اٹھایا کہ آئین کو ناقابل عمل بنایا جا رہا ہے، اپنی آنکھیں بند نہیں کر سکتے، کیا آج انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہو رہی؟ یہ تاثر کیسے دیا جا سکتا ہے کہ آج کچھ نہیں ہو رہا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ نے سوموٹو لیا ہے اب کچھ تو کرنا ہی ہے، ججز اپنے چیف جسٹس کو بتائیں اور وہ کچھ نہ کرے تو اس کا بھی کچھ کرنا چاہیے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ماضی میں جو ہوا اس سے سبق سیکھیں لیکن مستقبل کیلئے لائحہ عمل تو بنائیں، ججز کے اس خط کو عدلیہ کی آزادی کے لیے سنہری موقع سمجھنا چاہیے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ انکوائری کمیشن بنا تو تصدق جیلانی پر ذاتی حملے کیے گئے، ان پر بے جا تنقید سن کر مجھے شرم آئی، جو کچھ ان کے بارے سوشل میڈیا پر کہا گیا اس کے بعد انھوں نے معذرت کر لی، شریف آدمی پر حملے ہوں گے تو وہ تو چلا جائے گا، پتہ نہیں ہم نے اس قوم کو تباہ کرنے کا تہیہ کر لیا ہے۔ججز کو دباؤ ساتھی ججز، اہلخانہ، بچوں اور دوستوں سے بھی آ سکتا ہے، آج کل نئی وباء پھیلی ہوئی ہے سوشل میڈیا اور میڈیا کا بھی پریشر ہوتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ غلطیاں پہلے بھی ہوتی رہی ہیں، اب بھی ہو رہی ہیں لیکن ہم نے اپنا احتساب کر کے دکھایا ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے حامد خان سے مخاطب ہو کر استفسار کہ آپ نے کوئی درخواست دائر کی ہے تو کمیٹی کو بتائیں، پٹیشنز فائل ہونے سے پہلے اخباروں میں چھپ جاتی ہیں، کیا یہ پریشر کے لیے ہے؟ میں تو کسی کے پریشر میں نہیں آتا، نئی چیز شروع ہو گئی ہے، وکیل کہہ رہے ہیں کہ از خود نوٹس لیں، جو وکیل از خود نوٹس لینے کی بات کرتا ہے اُسے وکالت چھوڑ دینی چاہیے۔

چیف جسٹس فائز عیسی نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرکے کہا کہ آپ تو کہہ رہے ہیں کہ عدالیہ میں مداخلت نہیں ہوئی لیکن ہم آپ کو حکم دیتے ہیں کہ عدالتی امور میں مداخلت بند کر دیں۔

دوران سماعت چیف جسٹس قاضی فائزعیسی نے ریمارکس دیئے کہ ہائیکورٹ کے معاملات میں مداخلت نہیں کرنا چاہ رہے مگر ان کے اختیارات سے آگاہ تو کر سکتے ہیں ۔ ججز کو ملک کا آئین اور قانون توہین عدالت کی کارروائی کا اختیار دیتا ہے، شوکت صدیقی کیس کا عدالتی فیصلہ ہائی کورٹ کے چھ ججز کو فائدہ پہنچا رہا ہے۔

انہوں نے کہا جب سے میں چیف جسٹس بنا ہوں تب سے مجھے کسی جج نے ایسی شکایت نہیں کی کہ ان پر کسی قسم کا دباؤ ہے۔ اب جب شکایت آئی ہے تو ہم نے یہ معاملہ ٹیک اپ کر لیا ہے۔ اس وقت اسلام آباد میں سات جج ہی میسر تھے اس لیے سات رکنی لارجر بینچ بنایا گیا۔ اگلی مرتبہ ججوں سے مشاورت اور ان کی دستیابی پر فل کورٹ بنا دیں گے۔

پاکستان