اہم ترین

فیض آباد دھرنا رپورٹ : بحیثیت وزیر اعلیٰ شہباز شریف غافل اور کمزور قرار

2017 میں فیض آباد انٹرچینج پر ٹی ایل پی کے دھرنے کے محرکات اور پشت پناہی کرنے والوں کے تقین کے لئے قائم کمینش نے سابق آئی ایس آئی سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کو کلیئر قرار دے دیا۔۔

سپریم کورٹ کے احکامات پر سابق آئی جی سید اخترعلی شاہ کی صدارت میں سابق آئی جی طاہر عالم اور پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کے سینئر افسر خوشحال خان پر مشتمل تین رکنی انکوائری کمیشن تشکیل دیا گیا تھا۔ جسے فیض آباد دھرنے کی تحقیقات کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ جس کی رپورٹ کے مندرجات منظر عام پر آگئے ہیں۔

149 صفحات پر مشتمل اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس وقت کی پنجاب حکومت نے ٹی ایل پی مارچ کو لاہور میں روکنے کے بجائے اسلام آباد جانے کی اجازت دی۔ اس وقت شہباز شریف وزیر اعلیٰ پنجاب تھے۔ صوبائی حکومت غافل رہی اور اس نے کمزوری دکھائی جس کی وجہ سے مسائل نےے جنم لیا۔ دھرنے کے دوران پنجاب اور اسلام آباد پولیس میں رابطے کا فقدان تھا ، جس کی وجہ سے 7 افراد جاں بحق جب کہ سیکڑوں زخمی ہوئے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جانی نقصان کے بعد وفاقی حکومت نے مظاہرین کی قیادت تک رسائی کے لیے آئی ایس آئی کی خدمات حاصل کیں۔ دھرنا ختم کرانے کے لئے ٹی ایل پی سے کئے گئے معاہدے پر فیض حمید نے دستخط بھی اس وقت کے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال کی رضامندی سے کئے۔

فیض آباد دھرنا کمیشن نے کہا ہے کہ عوامی معاملات کو سنبھالنا سول انتظامیہ کی ذمہ داری ہے۔سویلین معاملے میں فوج یا ایجنسیوں کی مداخلت سے ادارے کی ساکھ شدید متاثر ہوتی ہے، فوج کو تنقید سے بچنے کے لیے عوامی معاملات میں ملوث نہیں ہونا چاہیے۔

رپورٹ میں کمیشن نے کہا ہے کہ پالیسی سازوں کو فیض آباد دھرنے سے سبق سیکھنا ہو گا۔ انٹیلی جنس ایجنسیوں کے کام کو ریگولیٹ کرنے کے لیے قانون سازی اور قواعد و ضوابط کا مسودہ تیار کرنے کی ضرورت ہے۔

پاکستان