اہم ترین

مصنوعی ذہانت سے برسوں پہلے نایاب بیماریوں کی تشخیص ممکن

نئی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ مصنوعی ذہانت کی مدد سے لوگوں میں برسوں پہلے کمیاب بیماریوں کی شناخت کی جاسکتی ہے۔

سائنسی جریدے سائنس ٹرانسلیشنل میڈیسن میں بتایا گیا ہے کہ ماہرین نے مصنوعی ذہانے کا ایسا پروگرام تشکیل دیا ہے جو ایسے لوگوں کی شناخت کرسکتا ہے جنہیں نایاب بیماریوں خدشہ تھا۔

تحقیق میں شامل سنیئر ڈاکٹر اور کیلیفورنیا یونیورسٹی لاس اینجلس میں مائکرو بایولوجی، امیونولوجی اور انسانی جینیات کے ماہر پروفیسر منیش بٹے کے مطابق نایاب بیماریوں کا شکار افراد میں مرض کی تشخیص اور علاج میں طویل تاخیر ہوجاتی ہے۔ جس کی وجہ سے بریض کو غیر ضروری نفسیاتی دباؤ اور مالی بوجھ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اے آئی ٹولز استعمال کرتے ہوئے ہم نے مریضوں میں بیماری کی تشخیص جلد کرنے کے لیے ایک خاکہ تیار کیا گیا ہے تاکہ ان کے الیکٹرانک ہیلتھ ریکارڈز میں ان علامات کی نشاندہی کی جا سکے جو مصدقہ مریضوں میں بھی ہپائی جاتی ہوں۔

اپنی تحقیق کے دوران ماہرین نے کامن متغیر امیونو ڈیفینسی، یا CVID کے نام سے جانے جانے والے بیماریوں کے مجموعے پر توجہ رکھی۔ بیماریوں کے اس مجموعے کی کئی برسوں یہاں تک کہ دہائیوں تک تشخیص نہیں ہوپاتی۔

محققین کا کہنا ہے کہ CVID ہر 25 ہزار مریضوں مین سے کسی ایک کو ہوتا ہے، یہ بیماری عام طور ہو اینٹی باڈی کی کمی اور کمزور مدافعتی ردعمل کا سبب بنتی ہے۔

ہارورڈ میڈیکل اسکول میں بائیومیڈیکل انفارمیٹکس کے فیلو اور نامور محقق روتھ جانسن کا کہنا ہے کہ مریضوں میں بیماریوں کی تشخیص میں تاخیر ہوتی ہے، کیونکہ CVID کی خرابی اکثر 60 سے زیادہ جینوں میں سے صرف ایک جین میں تبدیلیوں سے ہوتی ہے۔

اس تحقیق کے لیے محققین نے فی نیٹ (PheNet) نامی ایک AI تیار کیا ہے۔ اسے لفظ “فینوٹائپس” سے اخذ کیا گیا ہے، یہ مریضوں مین کسی بھی بیماری کی علامات کے لیے استعمال ہونے والی طبی اصطلاح ہے۔

محققین نے کہا کہ فی نیٹ (PheNet) مصدقہ CVID کیسز سے فینوٹائپ پیٹرن سیکھ کر اسے کسی فرد کے اسی بیماری میں مبتلا ہونے کے خدشے کی درجہ بندی کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ تحقیقی نتائج کو دیکھتے ہوئے تحقیقی ٹیم کو نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ سے 40 لاکھ ڈالر کی فنڈنگ بھی ​​ملی ہے تاکہ اے آئی پروگرام کا مزید مطالعہ کیا جا سکے۔

پاکستان