اہم ترین

80 سال قبل والدین کے لیے لکھا گیا خط بیٹی کو مل گیا

ای میل، ٹیلی فون، موبائل فون اور واٹس ایپ کے دور میں خط لکھنا کچھ فرسودہ سا لگتا ہے لیکن صرف چند برس پہلے تک یہ مواصلات کے سب سے نمایاں طریقوں میں سے ایک تھا۔دنیا کے مختلف حصوں سے لوگ ایک دوسرے کو خطوط بھیجتے تھے۔کبھی انہیں مقررہ وقت پر مل جاتی اور کبھی اس میں تاخیر ہو جاتی۔ لیکن کب تک؟ کیا کسی خط کو صحیح پتے پر پہنچانے میں 80 سال لگ سکتے ہیں؟ درحقیقت حال ہی میں امریکا کے شہر ڈیکلب میں بھی ایسا ہی ایک معاملہ سامنے آیا ہے۔

1943 میں ایلی نوائے کے ایک جوڑے کو بھیجا گیا خط 80 سال بعد ایک پوسٹ آفس سے ملا اور خاندان کے ایک فرد کے حوالے کر دیا گیا۔ یہ خط لیوس اور لیوینا جارج کے لیے تھا۔ جب یہ پوسٹ آفس میں اچانک پڑا پایا گیا تو وہاں موجود ایک ملازم نے جارج کے خاندان کو ڈھونڈنے کا فیصلہ کیا۔

بالآخر اس نے یہ خط اوریگون کے علاقے پورٹ لینڈ میں رہنے والے جارج خاندان کے رشتہ دار گریس سالزار کو دیا۔اس نے اسے لیوس اور لیوینا جارج کی بیٹی جینیٹ جارج تک پہنچایا۔

جینیٹ جارج نے مقامی ٹی وی انٹرویو میں بتایا اچانک ایک بہت پرانا خط ہمارے سامنے آنا ناقابل یقین لگتا ہے ۔ اسے کھولنے پر معلوم ہوا کہ یہ 1943 میں بھیجا گیا تھا جینٹ کے والدین کو ان کے ایک کزن نے لکھا تھا۔

خط لکھنے والے نے لواحقین سے اظہار تعزیت کرتے ہوئے لکھا گیا، ہمیں دکھ ہے کہ آپ کی پہلی بیٹی ایولین سسٹک فائبروسس سے چل بسی۔

جینیٹ جارج نے کہا، ‘میں اتنی دہائیوں سے نہیں جانتی تھی کہ میرے والدین نے مجھ سے پہلے ایک بچہ کھو دیا ہے۔ بچے کو کھونا ہمیشہ خوفناک ہوتا ہے۔ اس بات نے مجھے اپنے والدین کے اس غم کا احساس دلایا جو میری پیدائش سے پہلے ہی میرے خاندان کو سہا۔

جارج کے خاندان کا سراغ لگانے والے پوسٹ آفس کے ملازم نے کہا کہ ممکنہ طور پر خط اتنے عرصے تک پہنچایا نہیں گیا کیونکہ خط پر لکھے پتے میں گلی کا نام تو تھا لیکن مکان نمبر نہیں تھا۔

پاکستان