دنیا بھر میں گوشت کا بطور خوراک استعمال انتہائی رغبت سے کیا جاتا ہے لیکن تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ مردوں کے مقابلے میں خواتین کی خوراک میں گوشت کا استعمال کم ہوتا ہے۔
بین الاقوامی سائنسی جرہدے نیچر میں شائع تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں سب سے گوشت خور ملک چین ہے۔ جو دنیا بھر میں گوشت کی کل پیداوار کا ایک چوتھائی حصہ استعمال کرتا ہے۔ لیکن اس کی وجہ یہاں کی آبادی ہے۔
اگر اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو دنیا میں گوشت کی سب سے زیادہ فی کس اوسط کھپت امریکا میں ہے۔ جہاں ہر شخص سالانہ اوسطاً 102 کلو گرام گوشت کھاجاتا ہے۔ پاکستان میں گوشت کی سالانہ فی کس کھپت 24 کلو گرام ہے۔
ان تمام اعداد و شمار کے برعکس دنیا کے ہر ملک میں عورتیں مردوں کے مقابلے میں کم گوشت کھاتی ہیں۔
اس حوالے سے نیچر میں شائع تحقیق میں سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ عورتوں کی گوشت سے رغبت کم ہونے کی وجوہات کے تانے بانے لاکھوں برس پہلے انسانی طرز معاشرت سے منسلک ہیں۔
تحقیق میں کہا گیا ہے کہ ابتدائی ادوار میں مرد شکاری ہوتا تھا۔ اس لئے گوشت اس کی خوراک کا لازمین حصہ تھا۔ اس کے علاوہ شکار اور اس کے گوشت کو مردوں کی شان سمجھا جاتا تھا۔
دوسری طرف عورت زیادہ تر گھروں میں رہتی اور مردوں کی جانب سے مہیاں کی گئی خوراک پر گزارا کرتی تھی۔ ہزاروں سال گزر گئے لیکن آج بھی کئی معاشروں میں خواتین کو گوشت کے استعمال سے پرہیز کا کہا جاتا ہے۔
معاشرتی ارتقا کے ابتدائی ادوار میں عورتوں کو گوشت کھانے سے روکا جاتا تھا کیوں کہ ان کے خیال میں گوشت کا استعمال نسوانی ہارمونز پر منفی اثر ڈال سکتا ہے جس سے حمل اور بچے کی پیدائش میں پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔
آسٹریلیا کی یونیورسٹی آف ایڈلیڈ میں شعبہ نفسیات کی پروفیسر گیرولین اسملر کا کہنا ہے کہ مردوں کا عورتوں کے مقابلے میں زیادہ گوشت کھانے کا تعلق ان کی جنسی شناخت سے بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کو مرد ہی زیادہ تر باربی کیو کرتے ہوئے دکھائی دیں گے۔