فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کے لئے مسلمان خصوصی کوفیہ، رومال یا زیتون کی شاخیں استعمال کرتے ہیں لیکن اس مقصد کے لیے کٹا ہوا تربوز بھی خاص اہمیت رکھتا ہے۔
غزہ پر 7 اکتوبر کے بعد ہونے والی اسرائیلی بمباری کے بعد جہاں دنیا بھر کے مسلمان فلسطینیوں سے مختلف طریقوں سے اظہار یکجہتی کررہے ہیں وہیں کٹا ہوا تربوز بھی استعمال ہورہا ہے۔
فلسطین اور کٹے ہوئے تربوز کا کئی دہائیوں پرانا ساتھ ہے ۔ اسی ساتھ سے جڑی یادیں حالیہ اسرائیلی بربریت کے بعد دوبارہ تازہ ہوگئی ہیں۔
عرب میڈیا کے مطابق 1967ء کی چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ کے بعد اسرائیل نے مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی پر قبضہ کر لیاتھا۔ غزہ کی پٹی تاریخی اور جغرافیائی طور پر مصر کا حصہ تھی ۔ اسی طرح اردن کے زیر انتظام مقبوضہ بیت المقدس کو بھی اسرائیل نے اپنی سرحدوں میں شامل کرلیا۔
1967 کی جنگ کے بعد اسرائیل نے فلسطین کے پرچم پر پابندی لگادی۔ اس جرم کی اسرائیل کڑی سزا دیتا تھا۔ اس پابندی کے توڑ کے لیے فلسطینیوں نے کٹے ہوئے تربوز کی تصاویر کو پرچم کے متبادل کے طور استعمال کرنا شروع کردیا۔ کیونکہ تربوز کی ہر کاش میں وہیں رنگ موجود ہوتے ہیں جن سے مل کر فلسطین کا قومی پرچم بنتا ہے یعنی سبز، سفید ، سرخ اور سیاہ ۔
1967 کے بعد ایک علامت کے طور پر تربوز کا استعمال 2021 میں دوبارہ اس وقت شروع ہوا جب اسرائیل نے بیت المقدس کے محلے الشیخ جراح میں سیکڑوں سال سے مقیم فلسطینی خاندانوں کو بےدخل کرنا شروع کیا ۔ تاہم دوبارہ تربوز کو استعارے کے طور پر استعمال کیا جانے لگا ہے۔