اہم ترین

آئی ایس آئی پر عدالت پر اثر انداز ہونے کا الزام لگانے والے جج کی برطرفی کالعدم

سپریم کورٹ نے آئی ایس آئی اور اس کے افسران پر عدالتی فیصلوں پر اثر انداز ہونے کا الزام لگانے والے سابق جج شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کو کالعدم قرار دے دیا۔۔

اسلام آباد کے سابق سینیئر جج شوکت عزیز صدیقی نے 2018 میں راولپنڈی بار ایسوسی ایشن میں اپنے خطاب میںٓئی ایس آئی اور اس کے اس وقت کے سربراہ پر الزام عائد کیے تھے۔ انہوں نے کہا تھا کہ آئی ایس آئی کے افسران عدالتوں پر اثرانداز ہوتے ہیں اور اپنے من پسند فیصلوں کے لیے بینچ تشکیل دینے کے معاملات میں بھی مداخلت کرتے ہیں۔

وزارت دفاع نے سپریم جوڈیشل کونسل میں دائر کی گئی ان کے خلاف درخواست دائر کی تھی۔ جس پر سپریم کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم جوڈیشل کونسل نے آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت انہیں ہٹانے کی صدر مملکت سے سفارش کی تھی۔

اس وقت کے صدر مملکے عارف علوی نے سفارش کی روشنی میں شوکت عزیز صدیقی کو علدے سے ہٹادیا تھا۔ جس کے خلاف انہوں نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس حسن رضوی اور جسٹس عرفان سعادت پر مشتمل سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے رواں برس 23 جنوری فیصلہ محفوظ کیا تھا جسے آج (22 مارچ ) کو سنادیا گیا۔

عدالت عظمیٰ نے شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کے خلاف اپیلیں منظور کرتے ہوئے سپریم جوڈیشل کونسل کی سفارشات اور وزیراعظم کی صدر مملکت کو بھیجی گئی ایڈوائس پر عملدرآمد کالعدم قرار دے دیا۔

سپریم کورٹ نے 23 صفحات پر مشتمل فیصلے میں کہا ہے کہ بدقسمتی سے فیصلے میں تاخیر کی وجہ سے جسٹس شوکت عزیز صدیقی ریٹائرمنٹ کی عمر کو پہنچ گئے ۔شوکت عزیز صدیقی کو ریٹائرمنٹ کی عمر تک پہنچنے کی وجہ سے انھیں عہدے پر بحال نہیں کیا جا سکتا اس لیے انھیں ریٹائرڈ جج تصور کیا جائے اور اس سلسلے میں انھیں تمام متعلقہ مراعات دی جائیں۔

پاکستان