امریکی عدالت نے دنیا کے سب سے بڑے انٹر نیٹ سرچ انجن گوگل کو ناجائز اجارہ دار اور ملکی قوانین کی خلاف ورزی کرنے والا ادارہ قرار دے دیا۔۔
امریکی نیوز ویب سائیٹ کے مطابق 2020 میں امریکی حکومت نے گوگل پر الزام لگایا تھا کہ اس نے سرچ مارکیٹ اور اشتہارات پر رکاوٹیں کھڑی کرکے اور فیڈ بیک لوپ بنا کر اپنی جارہ داری قائم کررکھی ہے۔ 4 سال کی سماعتوں کے بعد اب امریکا کی وفاقی عدالت نے فیصلہ سنادیا ہے۔
امریکی کی وفاقی ضلعی عدالت کے جج امیت مہتا نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ گوگل نے اسمارٹ فونز اور براؤزر پر اپنا ڈیفالٹ سرچ انجن رکھنے کے لیے غیر قانونی کام کیا ہے اور اس کے لیے گوگل نے کئی ارب ڈالرز بھی ادا کیے ہیں۔
عدالت نے 277 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلے میں گوگل کو ایک ناجائز اجارہ داری قائم کرنے والا ادارہ قرار دیا ہے۔
کیس کی سماعت کے دوران گوگل کے وکیل جان شمڈلین نے دعویٰ کیا تھا کہ کیس میں گوگل کو پوزیشن بہت مستحکم ہے۔ شواہد اور ثبوت کی روشنی میں عدالت کا فیصلہ ان ہی کے حق میں آئے گا۔ تاہم اس فیصلے پر گوگل کی جانب سے ابھی تک کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔
امریکا ہی میں گوگل کے خلاف ایڈورٹائزنگ ٹیکنالوجی سے متعلق ایک کیس بھی زیر سماعت ہے جس کی سماعت رواں سال ستمبر میں ہونی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ عدالت کا یہ فیصلہ کئی ٹیک کمپنیوں کے لیے کسی بھونچال سے کم نہیں۔ اس فیصلے کے بعد ٹیک کے میدان میں اپنی اجارہ داری قائم کرنے والی کمپنیوں کے کاروباری طور طریقے تبدیل ہوسکتے ہیں۔